بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں گذشتہ دنوں کمپلکس پر پاکستانی فوج و حساس اداروں کے دفاتر میں حملے میں مارے گئے فدائیں کی جنازہ و تدفین کے دوران لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت اور اس دوران جذباتی مناظر دیکھے گئے۔
بلوچ نوجوانوں کی کثیر تعداد کے ساتھ ساتھ بلوچ شہداء کے گھروں میں خواتین اور دیگر افراد نے جاکر انہیں سلامی پیش کی اور عقیدت کے نذرانے پیش کیے۔
ہفتے کی صبح تربت ملک آباد میں جب شہید بابر ناصر کو دفنانے کی تیاریاں کی جارہی تھیں تو قریبی گھروں سے خواتین نے آکر ان کا دیدار کیا اور ان پر عقیدت کے نذرانے پیش کیے۔
ان خواتین میں شہید شاہ داد کی والدہ بھی شامل تھیں جنہوں نے شہید بابر کے جسد خاکی کو گلے لگاکر بوسہ دیا اور میت سے مخاطب ہوتے ہوئے سلام پیش کرنے کے ساتھ کہاکہ جب تم شہید شاہ داد سے ملو گے تو انہیں سلام کہنا وہ تمہارا وہاں انتظار کررہا ہوگا، وہ یقیناً تمہارے سلامی کے لیے سب سے پہلے کھڑا ہوگا، تم اسے دیکھو گے وہ تمہارے راہ کا سب سے بہترین ساتھی ہے۔ ان الفاظ کے ساتھ شہید شاہ داد کی والدہ نے شہید بابر کی دونوں بہنوں اور والدہ کو حوصلہ دیتے ہوئے اس شہادت کو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے ایک اعزاز سمجھ کر قبول کرنے کو کہا۔
جب شہید بابر کو آخری آرام گاہ منتقل کیا گیا وہاں بھی بے انتہا جذباتی مناظر نظر آئے نوجوانوں نے آگے بڑھ کر شہید کو سلامی پیش کرنے اور دیدار کرنے کی کوشش کی جس پر ایک مقامی مذہبی شخص نے انہیں منع کیا لیکن نوجوانوں نے اس کی ایک نہ سنی اور انہیں کہاکہ وہ رشتہ دار کی حیثیت سے حق جتانے کی کوشش نہ کریں نوجوانوں کے دیکھا دیکھی جنازہ گاہ کے تمام شرکا نے شہید کا دیدار کیا۔
اس کے علاوہ میناز بلیدہ میں بھی شہدائے زرپہازگ کی تدفین کے دوران اسی طرح کے جذباتی لمحات نظر آئے، نوجوان بڑی تعداد میں قبرستان آئے تھے۔
ادھر آپسر میں شہید کریم جان زوران کی تدفین سے قبل ایف سی نے مقامی سرکاری حمایت یافتہ گروہ کے ذریعے انکی کے لواحقین کو ہراساں کرکے ان سے زبردستی ویڈیو بیان ریکارڈ کرایا۔
عینی شاہدین کے مطابق ویڈیو بیان کی خاطر شہید کریم جان کی میت کئی گھنٹوں تک تدفین نہیں کرنے دی گئی۔
ذرائع کے مطابق لواحقین کو بلیک میل کیا گیا کہ اگر ویڈیو بیان جاری نہیں کیا تو آپ کے دوسرے بیٹے کی واپسی نہیں ہوسکے گی۔ خیال رہے فدائی کریم جان کا بھائی جہانزیب فضل جبری طور پر لاپتہ ہے۔
واضح رہے بی ایل اے فدائی کریم جان کو بھی مئی 2022 میں جبری لاپتہ کیا گیا جنہیں تین مہینے بعد رہا کردیا گیا جس کے بعد اس نے بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔
سماجی رابطوں کی سائٹ پر پاکستان فوج سے منسلک اکاؤنٹس سے کریم جان کو لاپتہ شخص کے طور پر ظاہر کیا جارہا ہے تاہم بلوچ سیاسی و سماجی حلقے ان دعوؤں کو رد کرچکے ہیں جن کا کہنا ہے کہ کریم جان نے تین مہینے جبری گمشدگی کے بعد مسلح جہد کا راستہ اپنایا۔
اس کے علاوہ گیشکور اور خضدار میں بھی فدائین زر پہازگ کی میتیں پہنچنے پر لوگوں نے محبت اور عقیدت کا اظہار کیا اور میتوں پر پھول نچھاور کیے۔