بلوچستان کی دلہن شاری
تحریر: فرحان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جس کی تربیت bso آزاد جیسی عظیم ادارے نے کی ہو وہ کیسے چیئرمین زاہد اور ثنا سنگت سے قربانی کی راہ میں پیچھے رہ سکتی ہے۔
شاری اپنے شوہر اور دونوں بچوں کے لئے پوری دنیا تھی۔ شاری ماہو اور مہرو کی صبح و شام تھی۔ شاری صرف اپنے بچوں کی ماں نہ تھی وہ اسکول میں استاد ہونے کے وجہ سے تین سو بچوں کی ماں تھی۔ شاری اُستاد تھی اِس لئے وہ بہت خُوب سبق یاد کروانا جانتی تھی۔ طالب علموں کے ساتھ ساتھ اپنے قوم اور دُشمن کو بھی شاری نے ایسا سبق یاد کرایا کہ رہتی دنیا تک نہ قوم اور نہ ہی دُشمن وہ سبق بھول سکے گی۔ بلوچستان میں اگر اُستادوں کا نام لیا جائے اور اُس میں پروفیسر صباء دشتیاری کا ذِکر نہ ہو تو یہ سچائی اور حقیقت کی پردہ پوشی ہوگی۔ پروفیسر صباء جس کو بلوچ آزادی کا استاد کہا جاتا ہے۔ بلکہ حقیقتاً صباء آزادی کے استاد تھے۔ صباء کی آواز آج بھی بلوچستان یونیورسٹی میں گونج رہا ہے کہ یہ بلوچ کی زمین ہے۔ بلوچ قوم اور دُشمن آج تک وہ سبق نہ بھول پائے جو صباء نے دیا تھا۔ اور آج ایک اور اُستاد شاری نے ایک اور تاریخ رقم کردی۔
ہر صبح کی طرح آج بھی شاری اُٹھ کر اپنے بچوں کے لئے ناشتہ اور چائے بناتی ہے اور اُنکو بستر سے اٹھاتے وقت مہرو اور محوِ کی گالوں کو چومتی اور لوری گا کر کہتی میرے جان کے ٹکڑوں، میری آنکھوں کے ٹھنڈک، میرے دِل کے سکون، میرے مستقبل کے سہارے، میرے گھر کے چراغوں، میری دل کے دھڑکنوں اب اُٹھو ۔ اور مہرو کو اپنی کندھوں پر اُٹھا کر محوِ کو ہاتھ سے پکڑ کر لوری گاتی ہوئی دونوں کو ناشتہ کرا کر پھر نہلا کر کپڑے پہنا کر دونوں کو سینے سے لگا کر مسکرا کر کہتی جس طرح میں اتنے وقت سے تُم لوگوں کو ہر روز تیار کر لیتی ہوں اب بس محوِ تُم بڑی ہوگئی ہو آج کے بعد تمہیں خود کو اور مہرو کو تیار کرنی ہوگی۔ اپنے بابا کے لئے بھی تمہیں ناشتہ بنانی ہوگی۔ محوِ نہیں امّا جان میں اتنی بڑی نہیں ہوئی ہوں امّا جان میں بوڑھی بھی ہوجاؤں تب بھی میں آپکے ساتھ رھوں گی اور آپ مُجھے اسطرح اُٹھاؤ اور نہلاو یوں ہی لوری گاتی ہوئی میری گالوں کو چومتی رہو۔ تو شاری کہتی ہے کہ محوِ تُم چھوٹی بچوں کی طرح ضد نہ کرو تم میری بڑی بیٹی ہو۔ محوِ اِدھر دیکھو اس طرح میکپ کرتے ہیں آئندہ اسی طرح خود کو سینگار لو۔ ہمیشہ بلوچی کپڑے پہنو تُم پر بلوچی کپڑے بہت جچتے ہیں۔ محوِ تُم مجھ پر گئی ہو اور جب بھی میں بلوچی کپڑے پہنتی تھی تُو مُجھے میری لُمّہ جان کہتی تھی کہ شاری تمہیں لوگوں کی نظر لگ جائے گی۔ ایک کالا ٹیکہ میرے چہرے پر لگاتی تھی اور پھر میں اسکول جاتی تھی اس لیے محوِ تُم بھی خود کو روزانہ ایک کالا ٹیکہ لازم لگانا۔ محوِ اگر کوئی تمہیں پوچھے کہ تمارا ماں کہاں اور کون ہے اگر کوئی تمہیں یتیم کہے تو اسے کہنا کہ تم یتیم نہیں ہو تمارا میرا اور ہم سب بلوچوں کا ماں بلوچستان ہے۔ اور صرف وہی ماں ہے جو ہمیں مرنے سے پہلے اور بعد میں بھی سینے سے لگا کر رکھتی ہے سرزمین(بلوچستان) سے اچھی ماں کہیں نہیں ہے۔ محوِ بھی حیران ہوئی ہوگی کہ آج میری امی کس طرح کی باتیں کر رہی ہے لیکن محوِ کی عُمر ہی کیا تھی کہ وہ یہ سب سمجھتی۔ ایک آخری بار ایک عظیم قربانی دینے والی ماں نے اپنے بیٹوں کو (شاری نے محوِ اور مہرو) کو اتنے دیر تک گلے لگایا کہ جیسی ایک پوری عمر گزر جائے۔
اُفف ایک یہ رخصتی اور ایک وہ لُمّہ یاسمین کی ریحان جان کو رُخصتی دنیا کے سب سے دردناک اور سب سے خوبصورت رُخصتی تھی۔ جب مقصد اتنی عظیم(آزادی) ہو تو یہ رُخصتی کسی دُلہن کی رُخصتی سےکم نہیں۔
شاری اُس آخری بار گلے لگنے کے ساتھ اپنا جنم دن بھی پوری جشن سے اپنے بچوں کے ساتھ منا رہی تھی۔ اُن بچوں کو شاری کی ممتا کے بغیر اور کچھ سمجھ نہیں آ رہی ہو گی۔ شاری پورا دِن اپنے بچوں کو دیکھتی رہی مُجھے یقین ہے کہ جب شاری اپنی بچوں کو دیکھ رہی ہوگی تو اسکو لُمّہ یاسمین اور ریحان جان کا وہ رُخصتی بہت یاد آیا ہوگا اور لُمّہ یاسمین کی قُربانی نے اسکو اور مضبوط کی ہوگی۔ اتنی مضبوط کے پھر شاری نے پیچھے مڑ کر اپنے بچوں کو دیکھا تک نہیں۔
یہ وہ دِن ہے جب شاری قربان ہونے کے لئے آئی تھی پر نجانے کیوں اُس دن شاری کی بمب بلاسٹ نہ ہوئی۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شاری خود کی پیر کچھ اسطرح زمین پر مارتی ہے کہ جیسے کسی فٹبال پلیئر سے گول مس ہوئی ہو اور وہ غصے میں زمین پہ پیر مار کر خود کی غُصّے کی اظہار کرتی ہے۔ بلکل اسی طرح شاری نے بھی اپنی غصے کی اظہار کی۔ اُف موت سے اتنا پیار۔ موت سے اِس عشقِ کی وجہ جب ایک خوبصورت مقصد بلوچستان ہو تو یہ عشقِ دنیا کی عظیم عشقِ کہلائے گی ۔ ٹارگٹ مس کرنے کے بعد پورا دن یہ سوچنا کہ کل میں کسطرح اپنا ٹارگٹ حاصل کر لونگی اور اسی سوچ میں اپنی دو ننی پریوں کو بھی بھول جانا اُف اِس سوچ نظریہ فکرِ پر قربان جاؤں۔ پھر سنگتوں سے ہال اھوال میں ہونا کے ٹارگٹ آج مس ہوا کل نجانے کیا ہوگا۔ سنگت بھی تو اُستاد اسلم کا پیرو کار تھا ہنس کر کہنے لگا کہ شاری خیر ہے آج نہیں تو کل ہوگا۔ آج شام بس اپنے بچوں کو لوری سناتے رہو ٹارگٹ کل دیکھا جائیگا۔ پر یہ لوری صرف موبائل میں ویڈیو کال کی صورت میں مُمکن تھی کیوں کہ وہ بچے اب شاری سے بہت دُور پہنچ چکے تھے۔ پوری رات شاری اپنے بچوں کو ویڈیو کال پر مہر و محبت کرتی رہی سمجھاتی رہی ایسے میں کب صبح ہوئی پتہ ہی نہ چلا۔ اور پھر شاری نے دشمنوں کی نیندیں حرام کردی۔
شاری مجید بریگیڈ کی پہلی بلوچ خاتون فدائی تھی اور شاری اپنی آخری ویڈیو پیغام میں اِس بات پر فخر کرتی ہے کہ اسکو پہلی بلوچ خاتون فدائی کی اعزاز حاصل ہے۔ یہ اب صرف ایک شاری تک نہیں رکنے والی جنگ ہے۔شاری سے سمعیہ اور سمعیہ سے یہ ہزاروں کی ایک تاریخ ہوگی انشاءاللہ۔ آج محوِ اور مہرو کو شاری کا وہ پیار تُو میسر نہیں پر لُمّہ یاسمین کی پرورش اُنکے لیے شاری کی پیار سے کم نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔