بلوچستان کا منظرنامہ
ٹی بی پی اداریہ
بلوچستان میں بلوچ مسلح تنظیموں کی جانب سے بڑے حملوں کے بعد وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کئے جاتے ہیں جِن میں سب سے زیادہ متاثر خواتین و بچے ہوتے ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی کی مچھ شہر پر قبضہ اور پاکستان فوج پر مہلک حملوں کے بعد بولان و ملحقہ علاقوں میں وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کی گئی ہے جس سے اشیا خوردنوش کی قلت پیدا ہوگئی ہے، بیماروں کو اسپتال و ڈاکٹروں تک رسائی نہیں ہے اور لوگ مختلف علاقوں میں محصور ہوچکے ہیں۔
فوجی آپریشنوں میں خواتین اور بچے اجتماعی سزا کا نشانہ بنتے ہیں، بولان و گردنواح میں پہلے بھی فوجی آپریشنوں میں خواتین جبری گمشدہ کئے گئے ہیں۔ لواحقین کی طرف سے جبری گمشدہ افراد کو جعلی مقابلوں میں مارنے کے خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کیونکہ بی ایل اے کے درہ بولان آپریشن کے بعد چھ جبری گمشدہ افراد کو مقابلوں میں مارنے کا دعویٰ کیا گیا جو پہلے سے جبری گمشدہ تھے اور اُن کے لواحقین اسلام آباد احتجاج میں شامل تھے۔
سرفراز بگٹی کی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد قوم پرست حلقے خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ بلوچستان میں فوجی آپریشنوں، جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر میں اضافہ ہوگا اور اُن کا خدشہ بجا ہے کیونکہ سرفراز بگٹی اُن لوگوں میں شامل ہیں جو پاکستان کے مقتدر حلقوں کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، وہ جبری گمشدگیوں کے سنگین مسئلے سے انکاری ہیں اور بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے سخت مخالف ہیں۔
سرفراز بگٹی بلوچستان کی قوم پرست تحریک کو ریاستی جبر کے زریعے ختم کرنے کے حامی ہیں، جس سے یہ خدشہ ہے کہ بلوچستان میں فوجی آپریشنوں اور قوم پرست حلقوں پر ریاستی جبری میں اضافہ ہوگا۔