بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ تعلیمی سال شروع ہوئے ایک مہینہ گزرچکا ہے لیکن بد قسمت بلوچستان کے بد حال سکولوں میں تاحال درسی کتب اور سٹیشنری کی بنیادی سامان نہ پہنچایا جاسکا۔ہزاروں طلبہ و طالبات روزانہ کی بنیاد پر سکول جاتے ہیں اور تعلیمی سلسلہ شروع نہ ہونے کے باعث مایوس لوٹ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مقامی میڈیا کے رپوٹس کے مطابق چاغی کے نواحی علاقے زیارت بلا نوش میں سو فیصد بچے سکول سے باہر ہیں۔ 21 ویں صدی کے برق رفتار اور ترقی کے دور میں جہاں باقی ماندہ دنیا خلا پہنچ چکا ہے وہاں بلوچستان کے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ جو کہ بلوچ عوام کو پسماندہ رکھنے کا ریاستی حربوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اسی طرح کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق جھل مگسی میں کم و بیش تین درجن کے قریب سکولز بند پڑیں ہیں اور ان علاقوں کے بچے سکولوں سے باہر ہیں جبکہ اساتذہ و دیگر عملہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہی ہے۔ جھل مگسی کا شمار بلوچستان کے پسماندہ ترین اضلاع میں ہوتا ہے جہاں کا لاچار عوام عرصہ دراز سے ریاست اور اس کے گماشتوں کے رحم و کرم پر ہے۔ ریاست کے معاونت سے جھل مگسی ریاست کے اندر ریاست بن چکا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تنظیم کٹھ پتلی حکومت کو تنبیہ اور متعلقہ حکام سے مطالبہ کرتی ہے کہ مذکورہ مسائل جلد از جلد حل کئے جائیں بصورتِ دیگر بی ایس او بلوچستان بھر میں احتجاجی تحریک شروع کرے گی۔