فدائی کریم جان اور جبری گم شدگی ۔ ذوالفقار علی زلفی

689

فدائی کریم جان اور جبری گم شدگی

تحریر: ذوالفقار علی زلفی
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ جبری گم شدگان کا مسئلہ جہاں بلوچ سماج کے سنگین ترین مسائل میں سے ایک ہے وہاں پاکستانی اکثریت کے نزدیک یہ جھوٹ اور من گھڑت کہانی ہے ـ پاکستانی بالخصوص شہری پنجاب کے سوشل میڈیا واریئرز بلوچ جبری گم شدگان کا مذاق بھی اڑاتے رہتے ہیں ـ بلوچ جبری گم شدگان کی روشن حقیقت کو مسخ کرنے میں پاکستانی میڈیا بھی جوش و خروش سے حصہ لیتا ہے ـ

تازہ واردات گوادر حملے کے بعد سامنے آیا ـ بلوچ لبریشن آرمی کا مجید بریگیڈ ایک فدائی یونٹ ہے جس کے سرمچار اپنی جان دینے کا فیصلہ کرکے حملہ کرتے ہیں ـ ہفتہ قبل گوادر میں ایک فدائی حملہ ہوا جس میں کریم جان نامی ایک نوجوان نے بھی اپنی جان فدا کردی ـ

پاکستانی فوج ایک نادیدہ قانون کے تحت فدائی حملہ آوروں کی لاشیں اس وقت تک لواحقین کے حوالے نہیں کرتی جب تک وہ ایک فارم پر دستخط نہ کردیں ـ اس فارم میں لکھا ہوتا ہے کہ ہمارا پیارا ایک دہشت گرد تھا جس کی ہم حمایت نہیں کرتے اور ہم ضمانت دیتے ہیں کہ اس کے جنازے پر نعرے بازی نہیں ہوگی اور نہ ہی قبر پر کسی تنظیم کا پرچم لگایا جائے گا ـ مجبور لواحقین کے پاس سوائے اس فارم پر دستخط کرنے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا ـ

گوادر حملے کے فدائی سرمچار کریم جان کے فارم پر جان بوجھ کر “مسنگ پرسن” لکھا گیا تاں کہ جبری گم شدگی کے سنگین مسئلے کے خلاف ریاستی بیانیہ کہ جبری گم شدگان دراصل پہاڑوں میں ہیں کو تقویت دی جا سکے ـ پاکستانی میڈیا اور شہری پنجاب کے سوشل میڈیا مجاہدین نے فوراً اس فارم کو اچک لیا اور جبری گم شدگان و ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے خلاف بلیک پروپیگنڈے کا بازار گرم کردیا ـ

پاکستان میں صحافت مر چکی ہے ـ اب یہ محض ایک متعفن اور بدبودار لاش ہے جس کی سڑاند سے پورا پاکستانی معاشرہ بیمار ہوچکا ہے ـ

یہ درست ہے کہ کریم جان جبراً لاپتہ ہوئے تھے ـ مگر یہ درست نہیں ہے کہ وہ گوادر حملے میں بازیاب ہوئے ـ

کریم جان حصول علم کے دوران 25 مئی 2022 کو تربت سے جبراً گم شدگی کا شکار ہوئے ـ ان کے لواحقین نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ریکارڈ میں ان کا نام بھی لکھوایا ـ متعدد بلوچ سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے اس جبری گم شدگی پر احتجاج بھی کیا گیا ـ یہ پوسٹس اور ٹوئیٹس سوشل میڈیا پر موجود ہیں ـ

30 اگست 2022 کو اطلاع آئی کریم جان بازیاب ہوچکے ہیں ـ ستمبر میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے بھی ان کا نام اپنی فہرست سے نکال دیا ـ دسمبر 2023 کو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اسلام آباد میں جبری گم شدگان کی جو فہرست پیش کی اس میں بھی کریم جان کا نام نہیں تھا ـ

بازیابی کے چند مہینے بعد کریم جان ایک دفعہ پھر غائب ہوگئے ـ اس گم شدگی کے خلاف نہ لواحقین نے احتجاج کیا اور نہ ہی بلوچ سوشل میڈیا نے کوئی آواز بلند کی ـ غالباً وہ جانتے تھے نوجوان کس راہ کا انتخاب کر چکا ہے ـ

اب کریم جان کی شہادت کے بعد پاکستان کا گھٹیا میڈیا اور شہری پنجاب کے بے حس سوشل میڈیا “مجاہدین” شور مچا رہے ہیں کہ جی دیکھا یہ مسنگ پرسن کہاں ہوتے ہیں ـ

عجب تماشا ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔