غزہ: اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے امداد کے منتظر 100 سے زیادہ فلسطینی ہلاک

124

شمالی غزہ میں امدادی ٹرکوں کے طرف امداد حاصل کرنے کے لیے جانے والے کم از کم 112 فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ 760 زخمی ہیں۔

غزہ شہر کے جنوب مغرب میں واقع ساحلی سڑک پر آنے والے امدادی ٹرکوں کو ہجوم نے گھیر لیا تھا اور اس وقت وہاں اسرائیلی ٹینک بھی موجود تھے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہجوم کو خبردار کرنے کے لیے فائرنگ کی لیکن قافلے کو نشانہ نہیں بنایا۔ کچھ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے براہِ راست ان پر فائرنگ کی۔

ایک فلسطینی عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ زیادہ تر اموات اس وقت ہوئیں جب ٹرک ڈرائیورز نے وہاں سے نکلنے کی کوشش کی اور اس دوران متعدد افراد کچلے گئے۔

اسرائیل کی طرف سے آسمان سے بنائی گئی ڈرون ویڈیو میں سینکڑوں لوگوں کو ٹرکوں کے اوپر اور ارد گرد دیکھا جاسکتا ہے جبکہ انٹرنیٹ پر لگائی گئی ویڈیوز میں لاشوں کو خالی امدادی ٹرکوں اور گدھا گاڑی پر پڑے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

غزہ کی وزارت صحت نے اسرائیل پر ’قتلِ عام‘ کا الزام لگاتے ہوئے 112 ہلاکتوں اور 760 لوگوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔

اس واقعے کے بعد سے عالمی برادری کی جانب سے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بند کمرہ اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ واقعہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں عارضی جنگ بندی کے لیے ثالثوں کی کوششوں کو پیچیدہ بنا دے گا۔

فرانس نے کہا ہے کہ ’خوراک حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے عام لوگوں پر اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ‘ کا دفاع نہیں ہو سکتا۔

فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ’غزہ سے آنے والی ان تصاویر پر شدید غم و غصہ ہے جہاں اسرائیلی فوجیوں نے شہریوں کو نشانہ بنایا۔ میں اس فائرنگ کی شدید مذمت کرتا ہوں اور سچائی، انصاف اور بین الاقوامی قانون کے احترام کا مطالبہ کرتا ہوں۔

’غزہ کی صورتحال خوفناک ہے۔ تمام شہری آبادی کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ انسانی امداد کی تقسیم کے لیے فوری طور پر جنگ بندی پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔‘

طبی خیراتی ادارے ایم ایس ایف نے کہا کہ یہ واقعہ خوفناک ہے اور انھوں نے ’فوری اور مستقل جنگ بندی‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ واقعہ غزہ کی وزارت صحت کے 30 ہزار سے زیادہ ہلاکتوں کے اعلان سے چند گھنٹے پہلے پیش آیا۔ وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر کے بعد سے اب تک 21 ہزار بچے اور خواتین مارے گئے ہیں۔ سات ہزار لوگ لاپتہ ہیں اور 70 ہزار 450 افراد زخمی ہیں۔

اقوام متحدہ نے غزہ کے شمال میں قحط کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ اس علاقے میں تین لاکھ لوگ ہیں اور ان کے پاس خوراک اور صاف پانی کے محدود زخائر موجود ہیں۔

جمعرات کو ہونے والا واقعہ غزہ شہر کے جنوب مغربی کنارے پر واقع نابُلسی چوک پر مقامی وقت کے مطابق چار بج کر 45 منٹ کے بعد پیش آیا۔

مصری امداد سے بھرا 30 ٹرکوں کا قافلہ شمال کی طرف آ رہا تھا جب عام عوام نے اسے گھیر لیا اور اس پر چڑھنے لگے۔ یہ قافلہ اس راستے کا استعمال کر رہا تھا جسے اسرائیلی فوج ’انسانی راہداری‘ کہتی ہے۔

عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

ہسپتال میں ایک زخمی شخص نے بتایا کہ ’میں زخمیوں میں سے ایک ہوں، میں پورا دن الرشید سٹریٹ پر تھا تاکہ اپنے بچوں کے لیے کچھ خوراک حاصل کر سکوں۔ یہ جھوٹے ہیں، انھوں نے کہا کہ ہم امدادی سامان لے کر آئے ہیں ہم نے اپنے خون سے اس امداد کی قیمت چکائی ہے۔‘

وہاں امداد کے منتظر ایک شخص نے بتایا کہ ’غزہ کے کسی بھی دوسرے شہری کی طرح میں بھی یہاں موجود ہوں۔

’تمام لوگ یہاں آٹے کے حصول کے لیے آئے ہیں، اور مجھے یہ بولنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہو رہی کہ ہم قحط کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔‘

عینی شاہد کامل ابو نہل کا کہنا ہے کہ انھیں نہ صرف گولی لگی بلکہ ان پر ٹرک بھی چڑھ گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’جب انھوں نے (اسرائیلی فوج) فائرنگ بند کی تو ہم دوبارہ امدادی سامان لینے گئے، جب میں کچھ آٹا اور ڈبے والا دہی لے کر ٹرک سے اترا تو انھوں نے ہم پر گولی چلا دی۔ مجھے گولی لگی اور ٹرک ڈرائیور نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی اور ٹرک میری ٹانگ پر چڑھ گیا۔‘

’خطرہ محسوس کرنے پر فوجیوں نے محدود ردِعمل دیتے ہوئے ان پر گولی چلائی‘

اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیل ہیگری نے دعویٰ کیا کہ ’کچھ زور زبردستی کرتے ہوئے دھکے دے رہے تھے جبکہ دیگر غزہ کے لوگوں کو کچل کر ہلاک کر رہے تھے، امدادی سامان کو لوٹ رہے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس بدقسمت واقعے کے نتیجے میں درجنوں غزہ کے لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ’محتاط ہو کر چند انتباہی فائر سے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش کی‘ لیکن پھر وہ پیچھے ہٹ گئے، ’جب سینکڑوں، ہزاروں میں تبدیل ہو گئے اور حالات قابو سے باہر نکل گئے۔‘

وہ زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسرائیلی فوج قافلے کو اپنی منزل تک پہنچنے میں مدد کر رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’قافلے کی جانب کوئی اسرائیلی فوج کی طرف سے حملہ نہیں کیا گیا۔‘

آئی ڈی ایف کے ترجمان کے مطابق کچھ شہری انتباہی فائرنگ کے باوجود قریب ہی واقع چیک پوسٹ پر موجود اسرائیلی فوجیوں کی جانب بڑھے۔ ان کا کہنا ہے کہ خطرہ محسوس کرنے پر فوجیوں نے ’محدود ردِعمل‘ دیتے ہوئے ان پر گولی چلائی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک فلسطینی عینی شاہد نے ہجوم اور ڈرائیوروں میں پائے جانے والے خوف و ہراس کے بارے میں بتایا جو آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مرنے والوں میں سے بیشتر کچلے گئے تھے۔

’اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی اور امدادی ٹرک لاشوں کو کچلتے ہوئے نکل گئے‘

حماس نے ’ناقابل تردید‘ شواہد جیسے کہ ’شہریوں پر سیدھی گولی چلانا اور ان کے سر کا نشانہ لینا جس کا مقصد انھیں فوری قتل کرنا تھا‘ کا حوالہ دیتے ہوئے آئی ڈی ایف کے بیان کو مسترد کر دیا ہے۔

درجنوں زخمیوں کو تشویشناک حالت میں غزہ شہر میں واقع الشفا ہسپتال لایا گیا۔ تاہم، وہاں موجود طبی عملہ زخمیوں کی تعداد اور ان کی شدت سے نمٹنے میں ناکام رہا۔

ہسپتال میں اپنے دوست، تیمر شنباری، کی لاش تھامے بیٹھے ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے لیے آٹے کا تھیلا لینے کی امید میں نابلسی چوراہے پر گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی ’اور امدادی ٹرک لاشوں کو کچلتے ہوئے نکل گئے۔‘

دو ہسپتالوں، کمال عدوان اور العودہ، میں زیرِ علاج زخمیوں کے بارے میں وہاں کے حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر کو گولیاں یا چھرے لگنے کے زخم آئے ہیں۔

مقبوضہ مغربی کنارے میں مقیم حماس مخالف فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اسرائیلی افواج پر ’گھناؤنے قتل عام‘ کا الزام لگایا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کے ترجمان نے کہا کہ وہ اس واقعے کی مذمت کرتے ہیں اور ایک بار پھر ’فوری انسانی بنیادوں پر جنگ بندی اور تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی‘ کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی زمینی کارروائی کے پہلے مرحلے کا نشانہ بننے کے بعد شمالی غزہ کو بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کئی مہینوں سے یہاں امداد کی فراہمی بڑی حد تک منقطع ہے۔

گذشتہ ہفتے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا تھا کہ ان کو اس علاقے کو بھیجی جانے والی امدادی سامان کی ترسیل اس وقت روکنی پڑی جب تین ہفتوں میں پہلی بار وہاں جانے والے ان کے قافلے کو بھوکے لوگوں کے ہجوم نے ایک اسرائیلی چوکی کے قریب گھیر لیا تھا اور بعد ازاں غزہ شہر میں ان کو فائرنگ کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔

منگل کے روز، اقوام متحدہ کے ایک سینیئر امدادی اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں تقریباً 576,000 افراد کو شدید خوراک کی قلت کا سامنا ہے، یہ آبادی کا کم و بیش ایک چوتھائی حصہ بنتا ہے جبکہ شمال میں دو سال سے کم عمر ہر چھ میں سے ایک بچہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔

وزارت صحت نے بتایا ہے کہ حالیہ دنوں میں شمالی غزہ کے ہسپتالوں میں پانی کی کمی اور غذائی قلت سے دس بچے ہلاک ہوئے ہیں۔