ہم دیکھیں گے – ملک جان کے ڈی | طاہر میر

386

ہم دیکھیں گے – ملک جان کے ڈی

طاہر میر

دی بلوچستان پوسٹ

ملک جان کے ڈی سے میرا قریبی تعلق ہے بلکہ یوں کہیئے کہ ہم دونوں ایک ہی گھر کے فرد ہیں۔ جب بھی ہم دونوں کا دیوان ہوتا ہے تو اکثر ہماری باتیں معاشرے، ادب اور ادیبوں پر ہوتے ہیں اور یہ ملک جان کی ادب سے دوستی اور دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ ہمیشہ ادب اور ادبی کاموں میں مصروف نظر آتے ہیں۔

ملک جان کئی سوشل سائٹوں پہ کالم، آرٹیکل اور فیچر اسٹوریز لکھتے ہیں جن کا عنوان زیادہ تر معاشرے کو درپیش مسائل پر ہوتے ہیں۔ پتا نہیں کہ یہ ادب کی وجہ سے ہے یا وہ فطرتاََ معاشرے کی محبت میں مبتلا ہے لیکن کوئی بھی گڑبڑ دیکھتے ہیں تو دردمند ہوجاتے ہیں اپنا قلم اور کاغذاٹھا کر لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ کہ شاید میں ان مسائل کا حل تجویز کر سکوں اگر نہ کر سکوں تو کم از کم معاشرے کے درد کو دوسروں تک پہنچاؤں۔

حال ہی میں انھوں نے ایک کتاب ”ہم دیکھیں گے” کو مرتب کیا ہے جس میں انھوں نے بلوچستان کی درد بھری کہانیوں کو سمیٹا ہے۔ یہ وہ کہانیاں ہیں جو بلوچستان سے باہر درآمد صحافیوں نے بلوچستان کے دُکھ اور درد کو محسوس کرکے قلم بند کیئے ہیں۔ یوں تو ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں لہذا ہر کوئی اپنا اپنا نظریہ رکھتا ہے لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ سب کے نظریے ایک ہو یا کہ حقیقت ہو اور جب بلوچستان کی بات ہوتی ہے تو یہی لگتا ہے کہ کُل غیر بلوچوں کا بلوچ اور بلوچستان کے متعلق نظریہ ایک ہوتا ہے بلکہ حقیقت کچھ اور ہے ۔ اس کتاب کے ذریعے ملک جان نے اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ غیر بلوچ بلوچستان کو کن نظروں سے دیکھتے ہیں۔

میں ایک بات یہاں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں تمام غیر بلوچوں کی بات نہیں کر رہا میں صرف اُن چند مخلص صحافیوں اور شخصیتوں کی بات کر رہا ہوں جو اپنے کام سے ایماندار اور مخلص ہیں۔

بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں کہانیاں ہمیشہ انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی آئے اور ان کو کاغزوں پر سمیٹے۔ اس خطے کو ہمیشہ سے صحافیوں اور قلم کاروں کی پیاس ہوتی ہے جو کبھی نہ بھجنے والی ہے۔ اس کا سبب صحافیوں اور میڈیا کا توجہ نہ دینا ہے۔ آج کَل بلوچستان کے حالت کچھ یوں ہیں کہ ہر فرد ، ہر گھر ایک کہانی ہے اور ایسے کہانی کہ اَن کَہے ہیں ، کبھی نہ بولنے والے کبھی نہ سننے والے۔

مزکورہ کتاب جس کا میں اوپر زکر کر رہا تھا بلوچستان کی اُن اَن کہے کہانیوں کا مجموعہ ہے جو پاکستان کے عظیم صحافیوں کے قلموں نے محفوظ کیئے ہیں۔

جن میں محترم حامد میر صاحب، محترم محمد حنیف صاحب، محترم وسعت اللہ خان صاحب اور محترمہ زاہدہ حنا صاحبہ سرِ فہرست ہیں۔ یہ ان عظیم شخصیات کے احسانات ہیں جو ہم مظلوم بلوچوں کو ہمیشہ یاد رہیں گے ، بلوچی کہاوت ہے کہ ”تاسے آپ سد سال ءِ وفا اِنت” ، ایک گلاس پانی کا سو سال وفا ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ عظیم شخصیات بلوچستان کے تاریخ کے حصے ہیں۔

آخر میں میں ملک جان کے ڈی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ان کی پہلی کتاب کے شائع ہونے پر اور امید کرتا ہوں ان کی کتابیں آئیندہ بھی ہمیں پڈھنے کو ملیں گے۔ اللہ تعالٰی آپ کو ہمیشہ چست اور سلامت رکھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔