چھالے زدہ پاؤں اور حوصلہ ءِ بولان
تحریر: شانتل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بتاؤ تم کس کے لیے کام کرتے ہو ؟ اور کون کون ہے تمہارے ساتھ حرام زادے کافر بتاؤ اب زبان کیوں بند ہے وہ تمام آوازیں آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں میں چیختا رہا کہ میں فقط ایک طالب علم ہوں اور آپ جو کچھ مجھ سے پوچھ رہے ہیں میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا مگر وہ میری بات کو سننے سے پہلے رد کرتا اور قہقہہ لگا کر کہتا ہاں تو تم بھی بالاچ کے مرید ہو ؟اسلم کے دلداہ ھو “
آج چار سال گزر جانے کے بعد بھی زندان میں گزارے اٗن اذیت بھرے لمحات کو اپنے ذہن سے پوری طرح نہیں نکال پایا ہوں وہ تمام آوازیں آج بھی میرے کانوں میں گونجتی اور مجھے رات بھر جگائے رکھتی ہیں جیسے وہ اذیت وہ بے چینی میری ذات میں گُھل گئی ہو۔
25 جون 2016 تھا آج بھی وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں لائبریری میں بیٹھا اپنے امتحان کی تیاری کر رہا تھا اتنے میں میرا فون بجا اور کامران کی کال آئی کہتا ہے چلو چائے پیٸیں میں کتابیں رکھ کے چائے پینے کے لیے جب باہر نکلا تو موسم بہت اچھا تھا دسمبر کی شام تھی اور چاروں طرف سرد ہوائیں چل رہی تھی اتنے میں مجھے یاد آیا کہ میں اپنا شال لائبریری میں بھول آیا ہوں میں اپنی سوچوں میں کھویا ہوا کیفے کی جانب چل پڑا کیفے کا راستہ تھوڑا لمبا تھا تو میں نے سوچا کیوں نہ جگجیت کو اپنا ہمسفر بنایا جائے میں نے فون نکال کر جگجیت کی ایک غزل لگا دی میں نہیں جانتا کیوں مگر مجھے یہ غزل بہت پسند ہے میں جب کبھی خود کو محسوس نہیں کر پاتا یا خود اپنے ہی اندر کوئی جنگ لڑتا ہوں تو میں جگھ جیت کو سنتا ہوں اور یہ میرا پسندیدہ ہے “پیار کا پہلا خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے ” میں اپنی ہی دنیا میں مگن چلتا جا رہا تھا مجھے کیا خبر تھی کہ اگلے پانچ منٹ میں میری زندگی بدل جائے گی میرے سبھی خواب ٹوٹ جائیں گے اور میں کسی ایسی جگہ میں ہوں گا جہاں میں خود کو خود نہیں پہچان پاؤں گا جہاں دن رات میں جینے کی بجائے مرنے کا سوچوں گا ہر لمحہ اپنے زندہ ہونے پر افسوس کروں گا کون جانتا ہے زندگی ان کے اگلے لمحےکیا لا رہی ہے۔
میرا گانابند ہوگیا اور اگلے لمحے میرے پاس آ کے ایک گاڑی رُکی کچھ لوگ کچھ کہے بنا میری طرف بڑھے اور مجھے گھسیٹ کر گاڑی میں بٹھا دیا میرے سر پر کچھ زور سے مارا اور اس کے بعد مجھے ہوش آیا تو میں کالی کوٹھڑی میں بند تھا وہاں صرف خون کی بو تھی ظلم و جبر کا راج تھا میں ابھی سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں کہاں ہوں اور کیوں ہوں اِتنے میں ہی کوئی دروازے سے اندر داخل ہوا اور میرے پاس آیا اور مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی میں کسی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا اور وہ اس بات پہ بضد تھا کہ میں سب جانتا ہوں وہ مجھے گالیاں دے رہا تھا مسلسل دھمکیاں دے رہا تھا۔
دور سے ایک سنگت نے آواز لگاٸ اور اور میں چونگ کر اُن خیلات سے نکل آیا اور خوش ھوا کہ وہ سب ماضی تھا اور ایک بُرا خواب تھا اب اس کا وجود نہیں۔
سنگت سیاہ وش !آؤ چائے پیتے ہیں میں جب وہاں پہنچا تو وہاں پر قہقہے ہی قہقہے تھے تھکےہوئے مگر پرعزم اور پراُمید لوگ صحیح کہتے ہیں کہ زمین ہر درد کا دوا ہوتا ہے وتن کی مٹی سب زخموں کا علاج ہوتا ہے چائے پیتے پیتے ہم سب ایک دوسرے سے حال احوال کر رہے تھے اور ڈسکشن کر رہے تھے آج کچھ نئے سنگت ائے تھے اور وہی توجہ کے مرکز تھے اور تمام ایسے طلباء تھے جو ابھی ابھی اپنی تعلیمی سرگرمیوں سے فارغ ہوئے تھےاور اب قومی جدوجہد کا حصہ بننا چاہتے تھے اِسی ڈسکشن کے دوران ایک سوال نے اپنی طرف سب کی توجہ مبذول کرائی اور وہ تھا کہ گراؤنڈ پر سیاست زیادہ موثر ہے یا پھر مسلح جدوجہد ؟سنگت آفتاب نے اس سوال کا نہایت خوبصورت اور صاف الفاظوں میں جواب دیا وہ کہنے لگے کہ گروانڈ پر سیاست ہمیں یکجا اور قوم کو توانا کرتا ہےاسی طرح مسلح جدوجہد اس توانائی کو بروئے کار لاتا ہے دونوں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں بطور ایک شعور یافتہ قوم ہمیں ان دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور ہم کیوں جدوجہد کو فقط چند ہی شکلوں تک محدود رکھیں یہ کسی بھی شکل میں ہو سکتا ہے دور کہیں پہاڑوں میں ایک بوڑھا شخص اس لیے بھی شہر کو ہجرت نہیں کرتا کے کہیں اسے اپنی زمین نہ چھوڑنا پڑے اسی طرح مورچے پر بیٹھا سرمچار جان تو دے گا مگر اپنی سُوگند سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اپنی جگہ کوشش کر رہا ہے اسی طرح پھر رویوں پر بات آئی کہ ایک سیاسی شخص کا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟اس کے رویے کا تنظیم پر کیا اثرات ہیں؟ چائے بناتے ہوئے سنگت شۓ بولے میرے خیال میں ایک تنظیمی سنگت کو دور اندیش راست گو اور فلیکسیبل, راز دار ہونا چاہیےتاکہ وہ وقت اور حالات کو مدنظر رکھ کر فیصلے لے اور ان میں کسی بھی طرح کی ملاوٹ نہ کرے اور اس طرح ان کے درمیان ایک دوسرے کے لیے محبت اور اپنائیت کے جذبے پروان چڑھیں گے اور مل جل کر بہتر انداز سے کام کر سکیں گے اگر ایسا نہیں ہوگا تو تنظیم اندرونی اختلافات کا شکار ہوگا اور قوم یکجاءہونے کی بجائے مزید بکھر جائے گا رات بہت ھو گئی تھی۔
تمام سنگت آہستہ آہستہ سونے چلے گۓ اور میں رات کی گارڈ ڈیوٹی کے لیے گات پر آگیا اور دوبارہ نہ چاہتے ہوئے بھی انہی تلخ ماضی کے ورقوں میں چلا گیا۔
دوسرے دن پھر ایک افسر آیا پھر اس نے مجھ سے وہی سوال کیے اور میں انکار کرتا گیا مگر اس نے میری ایک نہ سنی کہنے لگا تو پھر تم ایسے نہیں مانو گے ابھی تمھیں مزا چکھاتا ہوں اور اور پھر کسی کو اشارہ کر کےکچھ منگوایا اور مجھے برہنہ ہونے کو کہا اور کرسی پر باندھ کر الیکٹرک شاکس دیئے اور جب تک میں بے ہوش نہ ہوا اس عمل کو دہراتے رہے اور فتح کن قہقہے لگاتے رہے یہ کیسی فتح اور بہادری ہے جو ایک طالب علم کو برہنہ کر کے زنجیروں میں بند کر حاصل کیا جاتا ہے۔
آج مجھے اس زندان میں پڑے ہوئے ایک مہینہ گزر گیا تھا اور اب میں اپنے حواس کھونے لگا تھا مجھے خبر بھی نہیں ہوئی کہ میں کب درد سے کراہتا سو گیا اور الیکٹرک شاکس کے ساتھ اور بھی ٹارچر کے حربے اپنائے گئے جیسے ناخن نکالنا سگریٹ سے جلانا سونے نہ دینا اور بھوکا رکھنا۔
دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئےمگر اس کوٹھڑی سے نکلنے کا کوئی بھی راستہ نظر نہ آتا ہر روز ایک نیا افسر آتا سوالوں کی بوچھاڑ کرتا مارتا پیٹتا اور مایوس ہو کے چلا جاتا۔
ذرا بھر کو ہوش آتا تو میں اپنی ماں کے بارۓ میں سوچتاکہ وہ اب کس حال میں ہوگی وہ بھی اب مسنگ پرسنز کے کیمپ میں بیٹھی ہوگی اور ہر ایک در سے میری زندگی کی بھیک مانگ رہی ہوگی اور میرے باپ کے پاؤں کے چھالے اب مزید گہرے ہو گئے ہوں گے اور وہ ایک پاگل لڑکی جو مجھے دیکھ کر مسکرایا کرتی تھی اب اس کا کیا حال ہوا ھو گا کیا اب وہ کلاس کے بعد کینٹین میں بیٹھی ہوگی یا گھنٹوں لائبریری میں مطالعہ میں مصروف ہوتی ہو گی ؟
مجھے یاد نہیں میں کب سو گیا اور جب اٹھا تو کسی انجان جگہ پر تھا وہاں چاروں طرف طرف جنگل تھا اور میں نے کوشش کی کہ اٹھ سکوں اور دو قدم چلنے کے بعد پھر گر کر بے ہوش ہو گیا اور اگلے دن ہسپتال میں آنکھ کھولی اور امی کو اپنے بغل میں روتا پایا مجھے دیکھ کر وہ مجھ سے لپٹ گئ اور مسلسل روتی رہی میں اب بھی صدمے میں تھا اور خوف کی وجہ سے سو نہیں پاتا تھا میں کچھ ماہ میں جسمانی طور پر ٹھیک ہو گیا مگر میں ذہنی طور پر اب بھی ٹھیک نہیں تھا اور میں خود سے مسلسل یہی سوال کرتا رہتا تھا کہ میرا کیا گناہ تھا؟میرا بلوچ ہونا یا پھر شعور یافتہ ہونا۔
اور آخر کار مجھے اپنے تمام سوالوں کا جواب مل گیا اور وہ تھا غلامی میرا اپنے گھر میں بے گھر ہونا اور اس سب کا حل تھا جدوجہد دشمن کو اپنے وتن سے نکال دینا اور اپنی بقا ء کی جنگ اپنے ان لوگوں کے لیے جنگ جو اب بھی زندانوں میں اذیتیں سہ رہے ہیں ان ماؤں کے لیے جن کے بیٹے ابھی تک گھروں کو نہیں لوٹے اور ہر اس شہید کے ایمان کے لیے جو وہ میرے سمیت ہر بلوچ میں رکھتا تھا اور اس ایمان کی بنیاد پر ہنسی خوشی اپنی جان تک دے دیتا تھا
اب مجھے اپنی منزل مل گئی تھی اور میں کسی قسم کا تاکیر نہیں کرنا چاہتا تھا۔
ایک دن میں صبح اٹھا اپنی ماں کو خیر باد کہہ کر
اِس قافلے میں شامل ہوا اور اب میں ایک ایسی موثر آواز بن چکا ہوں جو دشمن کو چین کی نیند سونے نہیں دیتی ہے اور ان سے ان کے ہر عمل پر سوال کرتا ہے کہ تم کون ہوتے ہو میری زمین پر حکومت کرنے والے لوگوں کو مارنے والےاور مسائل کو لوٹنے والے تم کچھ نہیں ہو بس ایک قابض ہو جلد از جلد اپنے وطن سے باہر پھینک دیں گے۔
اِنہی خیالوں میں گم نہ جانے کب صبح ہو گئی اور ایک سنگت میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آج اپنی جگہ میری ڈیوٹی کرنے کا بھی ارادہ ہے کیا سیاہ وش ؟اور ہنس دیا میں اپنی کتاب اور راٸفل اٹھا کے کیمپ کی جانب بڑھا اور وہاں جاکر کچھ کھایا اور پھر چند گھنٹے آرام کرنے کا ارادہ کیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔