بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5362 دن ہوگئے، احتجاجی کیمپ میں تربت سے لاپتہ افراد کے لواحقین نے شرکت کی، جبکہ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں نیشنل پارٹی کے رہنما حاجی نیاز محمد، علی محمد اور دیگر لوگ شامل تھے۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ شہداء کی قربانیاں، ملکی سطح پر بلوچ عوامی آگہی، احتجاجی عمل میں شراکت داری جبکہ بین الاقوامی سفارت کاری کی وجہ سے بلوچ تحریک ایک حقیقت بن چکا ہے اور ایک اہم ترین موڈ میں داخل ہوچکا ہے، جس میں تمام طبقہ فکر کے لوگوں کو مشترکہ متحد ہو کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عسکری قیادت اپنے تمام تر ریاستی مشینری کو بلوچ نسل کشی اور بلوچ کارکنوں کو مارنے انہیں جبری لاپتہ کرنے میں لگائے ہوئے ہیں، ریاستی جبر کو روکنے کیلئے بلوچوں کو نئی صف بندیوں کی ضرورت ہے تاکہ مشترکہ طور پر اس جبر کو روکا جاسکے یا عالمی برادری کی توجہ بلوچوں پہ ہونے والے مظالم کی طرف لا سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اس ریاستی جبر میں مزید شدت آئے گا، ریاست بلوچستان میں ایک شدید خونی آپریشن شروع کرنے کا طے کر چکے ہیں جس کا آغاز وہ بولان اور مکران سے کر رہے ہیں، بولان سے بلوچ خواتین اور بچوں کو فوسز کے ہاتھوں لاپتہ کرنے کی خبریں ہمیں موصول ہو رہے ہیں جبکہ مکران میں دشت کے پہاڑی سلسلے میں بھی فوجی نقل و حرکت میں اضافہ دیکھنے کو آرہا ہے –