نظریہ: ایک ذریعہ، حدف نہیں ۔ نعیمہ زہری

395

نظریہ: ایک ذریعہ، حدف نہیں 

تحریر: نعیمہ زہری

دی بلوچستان پوسٹ

‏دنیا کی تاریخ میں کئی نظریے گذرے ہیں اور انکا جنم ہوا ہے۔ جن میں سے کئی وقت کے ساتھ ساتھ انسانی شعور اور عقل کی ارتقاء کے ساتھ ناپید ہوتی گئیں جبکہ بہت سے نظریے انسان اپنی ضرورت سمجھ کر ان کو اپنے معاملات اور رویوں میں اپنائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ نظریہ کی شاید شکلیں بہت سے ہوتے ہیں اور ان کو ماننے والے بھی انہی نظریوں کے آئیڈیاز کی مانند مختلف رائے کے مالک ہوتے ہیں۔ دنیا میں ریاستوں کی بنیاد ہی قومی بنیادوں پہ استوار کرنے کی کوشش اس نظریے کی پرچار ہے کہ جسے ایک خاص آبادی یا قوم اپنی بقا اور اپنی ترقی و ترویج کیلئے اپناتی ہے اور اس آئیڈیا کو اپنا نجات دہندہ یا صحیح معنوں میں اسے اکثریت کی بنا پر اپنا نجات دہندہ تصور کرنے کی وجہ سے پیروی کرتی ہے۔

نظریہ کسی فرد کی تعین شدہ حدود میں گری ہوئی ہو تو وہ نظریہ شاونزم اور فاشزم کی شکل اختیار کرتی ہے۔ نیشنلزم وہ نظریہ ہے جسکی وجہ سے قومیں اپنی ریاستیں تشکیل دینے لگیں، مثلاً اسرائیلی (یہودی) ریاست، فلسطینی ریاست، عرب ریاستیں، یورپی ریاستیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قومیں ریاستوں کو اپنی قومی بقاء کی نوید سمجھ کر انکو دنیائے سیاست کی لڑی میں پرو کر اپنی شناخت کیلئے استوار کرنے کیلئے جہد کرتے ہیں۔

جنگ عظیم اول اور دوئم کی بنیاد بھی نیشنلزم ہی ہوئی جب اسے محدود کیا جانے لگا۔ جب فاشزم اور نازی ازم کو دنیا میں قومیت کی پاکیزگی کا ذریعہ تسلیم کرنے لگے تو انسانی تصادم نا گزیر ہوئی۔ نیشنلزم کو دنیا ایک مذہب کی طرح فالو کرنے لگی اور اس کی بنیادیں ذہنی پختگی کی ذرخیز زمین میں پیوست ہونے لگیں اور وہ گہرے جڑ پکڑی ہوئی ہے۔ نیشنلزم ایک قوم کو بالا تر نہیں بلکہ اسے منفرد ہونے اور پیش کرنے کا نام ہے۔ یہی نظریہ ہے جسکی وجہ سے نیلسن منڈیلا جیسا شخص ستائیس سال سلاخوں کے پیچھے رہا۔ اور جب وہ اپنے آخری دنوں علالت سے موت کے قریب ہوئے تو ان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ اگر آپ دوبارہ زندہ کیے جائیں اور دوبارہ زندگی ملے تو آپ رب سے کیا طلب کرینگے، تو انہوں نے مسکرا کر کہا کہ افریکن نیشنل کانگریس کے ایک رکن کی حیثیت سے سیاسی زندگی طلب کرونگا۔ اور یہی نظریہ تھی کہ جنوبی افریقہ جیسی نسل پرستانہ حکومت بلکہ سماج ایک برابری پہ مبنی سماج اور سیاسی ڈھانچے کی طرف گامزن ہونے لگی حالانکہ نظریوں کی وجہ سے دنیا نے کشت و خون بھی دیکھی لیکن اسی نظریے کے ماننے والوں نے دنیا کی تہذیب کا رخ تبدیل کر کے اسکے سمت کا تعین کیا اور انسان کو جینے کا ایک مقصد نہ صرف فراہم کیا بلکہ اجتماعی زندگی اور بہتری کو ترجیح دیکر انفرادیت کو کچل دیا۔

‏یہ ایک ذریعہ ہے کہ انسان اپنی قومی اور شعوری حدف کو حاصل کر سکے، لیکن بد قسمتی سے اسے لوگوں نے خود ایک حدف بنایا ہے اور اس کی بنیاد پہ لوگوں پہ غداری کے القاب لگا کر انہیں قومی جد و جہد سے دستبردار تصور کرا کے کنارہ کیا جاتا ہے۔ قومی حدف ایک نہایت ہی حسین اور خوبصورت صبح کی تلاش ہے جو انصاف، برابری اور امن پہ مبنی ایک ابھرتی قوت بننے کی طرف قدم بڑھانا ہے، جبکہ نیشنلزم اس حدف کو حاصل کرنے کیلئے کی جانے والی قوت کے استعمال اور جہد کا رہبر ہوتی ہے۔ نیشنلزم کے حدود کا تعین کر کے اسے شاونزم یا فاشزم کی شکل دیکر اسکی خوبصورتی نا صرف بگڑ جاتی ہے بلکہ اس حسین نظریے کے ماننے والوں کیلئے, جو اپنی قومی بقا اور حدف کی طرف گامزن ہیں، مشکلات کھڑی کرتی ہے، اور کوالیفیکیشن کا تعین کرنا ایک درد سر بنتا ہے جب لوگوں کو جہد کیلئے کسی خاص حدود میں گھیرنے کی کوشش کی جائے۔

ایک قوم کی بقاء نا صرف کنونشنل قوت سے ہوتی ہے اور نا ہی ایک بند کمرے میں لکھاری کے قلم سے اپنی سوچ کو کتابی قالب میں ڈالنے سے بلکہ بقاء اور ترویج اس طاقت سے ممکن ہوتی ہے جسکے رخ کا تعین قلم کرے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔