بلوچستان کے ضلع خضدارکے علاقے گریشہ کے رہائشی خاتون بسران بلوچ کے پریس کانفرنس کے بعدمحمد یونس نے پریس کانفرنس کرکے جبری شادی کے الزامات کو مسترد کرکے بسران بلوچ کی بیٹی کے ساتھ اپنی شادی کوباہمی رضامندی اوراپنا حق قرار دیا ہے ۔
خضدار پریس کلب میں محمد یونس نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ہم دونوں نے اپنی رضا مندی سے شادی کی ہے جبکہ میری اہلیہ کے اہلخانہ نے مجھ پر اغوا اور جبری شادی کے الزامات لگائے ہیں جو کہ بے بنیاد ہیں۔ گذشتہ چند دنوں سوشل میڈیا پر میرے اور میرے اہلخانہ کیخلاف من گھڑت اور بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ نہ میں نے کسی کو اغوا کیا ہے اور نہ کسی سے زبردستی شادی کی ہے، ہم نے شرعی اصولوں اور بلوچی رسم و رواج کے مطابق شادی کی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس شادی کیلئے ہماری فیملی نے عبدالحمید اور ناکو حیدر کو جو میری اہلیہ کے نانا ہیں ان کو اعتماد میں لینے کیلئے بھیجا، انہوں نے اپنی بیٹی بسران اور ان کے بیٹے کی موجودگی میں کہا تھا کہ آپ لوگ جاکر میرے والد صاحب اور ان کی فیملی کو کہہ دے کہ آپ لوگ ہماری بیٹی کے وارث ہوں آپ لوگوں کا جہاں دل چاہے وہاں شادی طے کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ہماری فیملی نے مولانا رحیم بخش سے رابطہ کیا جو کہ ہماری فیملی کا سربراہ ہے انہوں نے ہمیں تربت بلایا اور ہماری رضا مندی پوچھی۔
انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ زمینوں کا ہے مخالفین 2010ء سے زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، میرے والد صاحب نے ان کا قبضہ روکے رکھا، 2008ء سے میری اہلیہ کے والد کی وفات کے بعد میرے والد نے ثمرینہ کی کفالت کی ذمے داری اٹھائی۔ اس وقت اس کی عمر چار سے پانچ سال تھی، میری اہلیہ کی زمینوں پر قبضے کیلئے مخالفین نے میرے والد صاحب پر تشدد بھی کیا، مجھے اور میرے بھائی پر جھوٹی ایف آئی آر بھی کاٹی، جو آج تک چل رہی ہیں، بحیثیت وارث میرا حق تھا کہ میں اس سے نکاح کروں جو کہ میں نے کیا، ہمارے مخالفین نے ہم پر اغوا کا مقدمہ کیا ہم نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا جہاں سے ہم بری ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ سماجی تنظیم سے کم از کم ہمیں یہ امید نہ تھی کہ وہ ہمارا موقف سنے بغیر اتنے بڑے الزامات لگا کر سوشل میڈیا پر مہم چلائیں گے، میں کہتا ہوں کہ سماجی تنظیم کے سنجیدہ افراد ہمارے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کریں نہ کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کریں۔