فدائی جمال شاہ کی زندگی اور جدوجہد
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
موت اٹل ہے جو کسی بھی وقت کہیں بھی اپنے بانہیں پھیلائے تاک میں لگی رہتی ہے۔ لیکن ایک سر زمین جہاں سانس لینے کے لئے بھی اغیار کی اجازت لازمی ہو وہاں کے نوجوانوں کے لئے اسپتال یا بستر میں موت کی آغوش میں جانا معیوب سمجھی جاتی ہے۔ معیوب اس لئے کہ جب سر زمین پر اغیار قابض ہوں اور نوجوان بغیر جدوجہد کے اس دار فانی سے کوچ کرجائے۔
بلوچستان انقلابیوں کی سرزمین ہے۔ ایک ایسی سرزمین جس نے انقلاب کے لئے اپنے بچوں کی تعلیم ،صحت حتی کہ جان قربان کرکے کہیں بچوں کو نئی جنم دیا ہے اور آج یہی بچے اپنے شباب میں اپنے مادر وطن کے دفاع کے لئے نہ صرف شعوری فیصلہ لینے کے قابل ہوئے ہیں بلکہ اس شعوری فیصلے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے عملی میدان میں سرگرم ہو کر ایک ایسی کہانی تخلیق کررہے ہیں جسے لوگ عشق کی کہانی کا نام دیتے ہیں اور اس عشق کی کہانی میں جمال شاہ عرف کمبر جیسے امر کردار جنم لیتے ہیں جن کا عشق وطن ہوتا ہے۔
ابتدائی زندگی
شہید فدائی جمال شاہ عرف کمبر ضلع آواران کی تحصیل کوہڑو میں عبدالمجید اور لال خاتون کے ہاں پیدا ہوئے۔ جھاو کی پسماندگی، ریاستی بربریت کسی بھی فرد کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اس نظام کی درندگی جو پاکستان نے بلوچستان میں مسلط کیا ہے کہ خلاف اٹھ کر کھڑا ہوجائے۔ جھاو شہید علی جان کی سر زمین ہے؛ جھاو ناکو خیر بخش کی سر زمین ہے جہاں کمبر جیسے نوجوانوں کا جنم لینا کوِئی حیرانگی کی بات نہیں۔
شہید جمال شاہ نے ابتدائی تعلیم آبائی علاقے سے حاصل کی اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے شال کا رخ کیا جو بلوچ سیاست اور بی ایس او کا مرکز تھا۔
سیاسی زندگی
زمانہ طالب علمی؛ شال اور بی ایس او کا وجود کسی بھی عام نوجوان کو شعوری سیاست سے منسلک کرنے کا ہنر بخوبی جانتی ہے لیکن ایک ایسا طالب جس نے ظلم و جبر کے کوکھ سے نکل کر شہر کا رخ کیا ہو، وہ بلوچ سیاست کو اپنے دکھوں کا مداوا سمجھتا ہے۔ شہید جمال شاہ نے 2009 کو بی ایس او آزاد میں شمولیت اختیار کی اور ایمانداری و مخلصی سے تنظیمی اپنی پروگراموں کو آگے بڑھایا۔
شہید جمال شاہ تنظیمی امور کو نہایت ہی احسن انداز میں آگے بڑھا رہا تھا۔کبھی تنظیمی لٹریچر اور پمفلٹ تقسیم کررہا تھا اور کبھی یونٹوں میں دورے کرکے ممبران کی تربیت کررہا تھا۔ وہ اپنے علاقے کا ایک مشہور سیاسی کردار تھا۔
شہید کمبر جان کے قول و فعل کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے حالات کی سختی کو کبھی اپنے تنظیمی امور میں رکاوٹ نہیں سمجھا بلکہ مشکل حالات میں بھی تنظیم کو منظم بنانے میں کردار ادا کرتا رہا ہے۔
وہ کہتے تھے کہ یہ حالات ہمارے مقصد اور تحریکی شدت سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہمیں ان حالات کا مقابلہ کرنا چاہئیے۔بلوچ سرمچاروں نے اپنے کاروائیوں سے جنگ کو نئی طاقت بخشی ہے اور سیاسی دوستوں نے اپنے سیاسی پروگرامز جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جنگی محاذ
سیاست کا مقصد اپنے قوم کے حقیقی مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں سیاست جی ایچ کیو کے گرد طواف کرتی ہے؛ پارلیمانی سیاست بھی فوج کے تابع ہوتی ہے ایسے میں آزادی کی جدوجہد کرنے والے سیاسی رہنماء و کارکنان بخوبی واقف ہے کہ پاکستان نے سیاست کی راہیں مسدود کرنے کے لئے بی ایس او کو اعلانیہ کالعدم جبکہ بی این ایم کو غیر اعلانیہ پابندی لگا کر رہنماوں و کارکنان کو جبری گمشدگی کے بعد شہید کردیا۔ شہید جمال شاہ جیسے باشعور فرزند واقف تھے کہ ریاست کے تشدد کا جواب صرف مسلح جدوجہد سے ہی دیا جاسکتا ہے اس لئے شہید نے 2015 میں بلوچ مسلح تنظیم بی ایل ایف کو جوائن کیا اور اپنی شہادت تک اپنی ذمہ داریاں بخوبی سر انجام دیتا رہا۔
2018 میں جب بلوچ لبریشن آرمی نے اپنے فدائی یونٹ کو متحرک کیا اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے مجید بریگیڈ نے پاکستان اور چینی مفادات پر مہلک حملے شروع کئے تو نوجوانوں کی قربانیوں نے دیگر کئی نوجوانوں کو مسلح تنظیموں میں شامل ہونے کی شعوری فیصلہ کرنے کی ترغیب دی اور انہی فدائیوں کی قربانیوں نے شہید جمال شاہ کو بھی متاثر کیا اور انہوں نے شہادت سے دو سال قبل اپنی خدمات مجید بریگیڈ کو تقویض کردی اور جنوری 2024 کو درہ بولان آپریشن میں بہادری کی اعلی مثال قائم کرکے تاریخ کے صفحوں میں اپنا نام سنہرے لفظوں میں درج کیا ہے۔
فیصلہ کن معرکہ:
انتیس جنوری دو ہزار چوبیس کو بلوچستان کے علاقے بولان مچھ میں بی ایل اے کے مختلف یونٹوں نے پورے شہر پر قبضہ کرکے پاکستانی فوجی کیمپوں اور تنصیبات پر مہلک حملے کئے اور تقریبا دو دن تک اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ یہ ایک فیصلہ کن معرکہ تھا جس نے بلوچ مسلح تنظیموں کی طاقت اور اسکی سامنے پاکستانی فوج کی بے بسی کو طشت ازبام کیا اور یہ فیصلہ کن معرکہ تھا ان فدائیوں کا جنہوں نے اپنی جوانی قومی تابناک مستقبل کے لئے قربان کردیا۔ ان نوجوانوں میں شہید جمال شاہ کا کردار ترجمان بی ایل اے کے تفصیلی بیان سے ظاہر ہوتا ہے۔ جئیند بلوچ کہتے ہیں آپ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھے اور یونیورسٹی سے اپنی گریجویشن مکمل کرچکے تھے۔
جمال بلوچ 2009 سے زمانہ طالب علمی کے دوران بی ایس او کے ایک متحرک کارکن تھے۔ جبکہ آپ 2015 میں بلوچ قومی آزادی کی مسلح محاذ سے منسلک ہوگئے۔ آپ غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک ایک گوریلا سپاہی اور نظریاتی سیاسی کارکن تھے۔ آپ نے دو سال قبل بی ایل اے – مجید برگیڈ کو اپنی خدمات پیش کیں، اور جانفشانی کے ساتھ اپنی فدائی ٹریننگ مکمل کی۔ آپ آپریشن درہ بولان کے دوران ایک مشکل محاذ سنبھالے ہوئے تھے، لیکن اپنی آخری گولی و آخری سانس تک آپ نے اپنی پوزیشن دشمن کے ہاتھ لگنے نا دیا۔
حروف آخر
انسان اپنی حیات سے موت تک مختلف نشیب و فراز سے گزرتا ہے۔نوجوانی انسانی شباب کا زمانہ ہے اور اس دور میں انسان مختلف خواہشات کے تابع اپنی زندگی گزارتا ہے لیکن احساس ایک ایسی انسانی خوبی ہے جو انسان کو یہ درس دیتا ہے کہ زندگی اور جوانی کو جینے کا لطف تب آتا ہے جب انسان اپنی زندگی جینے میں مکمل آزاد ہوں اور جب قومی غلامی سر پر منڈلائے تو جوانی اور بڑھاپہ کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔
شہید جمال شاہ اور دیگر فدائیوں نے اپنے دور شباب کو اس لئے قربان کیا کہ قوم کے نوجوان اس جنگ کا حصہ بن کر قومی غلامی کے خلاف سینہ سپر ہوجائیں اور اپنی آزادی کو قریب لانے میں کردار ادا کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔