غزہ میں جنگ بندی سے متعلق قرارداد پر برطانوی پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی

255

غزہ میں جنگ بندی کے معاملے پر برطانوی پارلیمنٹ میں بدھ کے روز ووٹنگ پر زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی۔ درجنوں قانون ساز پارلیمنٹ سے باہر نکل گئے اور ایسے میں جب ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں، غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے ووٹنگ پر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی تھیں ارکان پارلیمنٹ کے مزاجوں کی تیزی بڑھ رہی تھی۔

یہ ہنگامہ آرائی اسپیکر کی جانب سے ماضی کی مثال کو نظر انداز کر کے ووٹ کی اجازت دینے کے فیصلے کے بعد شروع ہوئی۔ جس نے حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کو اسرائیل-حماس جنگ پر اپنے موقف پر اپنے ہی قانون سازوں کے درمیان بڑے پیمانے پر بغاوت سے بچنے میں مدد دی۔

حکمراں کنزرویٹو پارٹی اور اپوزیشن کی اسکاٹش نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے قانون ساز احتجاجاً چیمبر سے نکل گئے اور بعض نے تو کارروائی نجی طور پر کرنے کی کوشش کی، ایسے اقدام کی شاید ہی کوئی مثال ہو۔

پارلیمنٹ کے اسپیکر لنڈسے ہوئل نے آخر کار معافی مانگ لی اور کہا کہ انہوں نے قانون سازوں کو مختلف نظریات پر اپنے ووٹ دینے کا یہ فیصلہ اس لئے کیا تھا کہ کیونکہ وہ ان میں سے کچھ کو جنگ کے بارے میں اپنے موقف پر درپیش تشدد کے خطرات کے باعث ان کی سیکیورٹی کے لیے پریشان تھے۔ انہوں نے پارلیمنٹ سے کہا کہ یہ قابل افسوس ہے اور میں اس فیصلے پر معذرت خواہ ہوں۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ اس طرح ختم ہو۔

لیبر پارٹی، جس کے قومی انتخابات میں جو اس سال بعد میں متوقع ہیں، جیتنے کے امکانات ہیں، مشرق وسطیٰ کی اس لڑائی کے بارے میں اس وقت سے اپنی پالیسی کی وجہ سے اندرونی لڑائی میں گھری ہوئی ہے جو سات اکتوبر کے حماس کے حملے اور اسکے نتیجے میں غزہ پر اسرائیل کے حملے سے شروع ہوئی۔

پارلیمنٹ میں مباحثے کا آغاز اسکاٹش نیشنل پارٹی نے کیا ۔ اس نے ایک قرارداد پیش کی، جس میں فوری جنگ بندی کے لئے کہا گیا تھا۔ لیبر اور کنزرویٹو پارٹیوں، جن دونوں نے اسرائیل کی حمایت کی ہے، جبکہ غزہ میں اس کی کارروائیوں پر تشیویش کا اظہار کیا ہے، قرار داد میں ترامیم تجویز کیں اور ایسی مختلف شرائط کے ساتھ جن کا جنگ میں وقفے سے پہلے پورا ہونا ضروری ہے۔

ہوئل نے ان دونوں تجاویز کو ووٹنگ کے لئے منتخب کر لیا اور اس روایت کو توڑ دیا جس کے مطابق اپوزیشن کی ایک پارٹی کسی اور قرارداد میں ترمیم نہیں کر سکتی۔ عام طور پر صرف حکومت کی پیش کردہ ترمیم منتخب کی جاتی ہے۔

جب اسپیکر نے اس حوالے سے اپنے فیصلے کا اعلان کیا تو بعض قانون سازوں نے اسپیکر پر اعتراض کیا۔ اور ایک رکن پارلیمینٹ نے ہوئل پر جو لیبر پارٹی کے سابق قانون ساز رہ چکے ہیں، ایک آئینی بحران پیدا کرنے کا الزام عائد کیا۔

دارالعوام میں حکومتی لیڈر پینی مورڈانٹ نے کہا کہ ہوئل نے پارلیمنٹ کی اہمیت کو کم کیا ہے اور حکومت کارروائی سے الگ ہو رہی ہے۔

اس افراتفری کے دوران باضابطہ ووٹ کے بغیر، جس میں قانون سازوں کے انفرادی نظریات ریکارڈ کئے جاتے ہیں، لیبر ترمیم زبانی منظور کر لی گئی۔

ہر چند کہ برطانوی حکومت کے لئے اس قرارداد پر عمل درآمد لازمی نہیں ہے۔ یا اس پر اسرائیل اور حماس کی جانب سے گہری نظر رکھی جائے گی، یہ امکانی طور پر لیبر پارٹی کے لیڈر اسٹارمر کے لئے مسائل پیدا کر سکتی ہے جو اپنی پارٹی کو ایک متحد اور بااصول پارٹی کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں جو اقتدار کے لئے تیار ہے۔

ادھر برطانیہ میں فلسطینی سفیر حسام زملوٹ نے ایل بی سی ریڈیو کو بتایا کہ یہ “شرمناک ہے ، انتہائی شرمناک۔” آج ہم نے برطانوی سیاست کو اس کی بدترین سطح پر دیکھا۔ سیاست داں ایک پوری قوم کو بچانے کے بجائے اپنے آب کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اور ایسے میں جب پارلیمنٹ میں مباحثہ ہو رہا تھا سینکڑوں مظاہرین پارلیمنٹ کے باہر مطالبہ کر رہے تھے کہ قانون ساز جنگ بندی کی حمایت کریں۔