علی شیر کرد کی ڈائری سے جنرل اسلم کی کتاب کا ایک اور باب۔ ودود ساتکزئی
تحریر: فرحان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
روز مرہ زندگی میں ہر شخص ہزاروں سے مِلتا جولتا ہے۔ اور ملنے کے وقت وہ کبھی یہ نہیں سوچتا کہ جس شخص سے وہ مِل رہا ہے وہ آگے جاکر کسی ایسے واقعے کا حصہ رہے گا، جو سب سے عظیم الشان ہے جس کے پانے کیلئے کئی سالوں کی سفر اور انتظار کے بعد شاہد ہی کسی کو نصیب ہو بس ملاقات ہونے کے بعد لوگ اُس لمحے کو ایسے نظر انداز کر لیتے ہیں جیسے کسی سے ملاقات ہوا ہی نہ ہو۔ اب میں ایک ایسے شخص کی ذکر کرنے جارہا ہوں جس سے ملنے کے وقت میں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ انسان اتنے خوبصورت نظریات کا مالک ہے۔
آپ سب بخوبی جانتے ہونگے کہ بلوچستان کے اکثر لوگوں کا معاشی کاروبار کا مرکز مغربی بلوچستان کی بارڈر پر بڈوکی کرنے کی کام سے ہوتا ہے۔ ایسے کاروبار کے سلسلہ میں ایک سنگت نے مُجھ سے حال احوال کیا کہ سنگت ایک سنگت کو کاروبار کے لئے بارڈر پہنچانا ہے۔ سنگت بہت تنگ دست ہے کوئی اور کاروبار نہیں مِل رہا ہے اِس لئے وہ بارڈر پر کام کرنے کے لئے آرہا ہے اسکو بارڈر تک لے جانا اور کسی کام کا بندوبست لازم کرنا۔ میں بس ایک تنگ دست بلوچ سمجھ کر اُس کو پنجگور بس سٹاپ سے لینے گیا۔ جب پہلی بار اُسے مِلا تو نہ میں اُسکا نام جانتا تھا اور نہ ہی وہ میرا نام جانتا تھا۔ پوچھنے پر اسنے اپنا نام کوہِ زاد بتایا۔ نہ جانے کیوں اُسکی آنکھوں میں بہت خوف تھا۔ بہت ڈرا ہوا لگ رہا تھا۔ میں نے سمجھا کہ شائد کام نہیں ملے گا اِس غم کی وجہ سے اتنا ڈرا ہوا ہے اور پریشان ہے میں نے اسکو تسلی دی کہ سنگت اتنا پریشان نہیں ہوجاؤ بارڈر پر کام بہت ہیں آپکو ضرور کوئی کام ملے گا کہ سب کو مِلتا ہے بس کسی کام کے سلسلے میں خود آپکے ساتھ نہیں آسکوں گا لیکن میرے سنگت ہیں جو آپکو کام دلا دینگے اور تب تک میں بھی خود کو فارغ کر کے آجاؤں گا۔
اِس بات سے وہ اور بھی خوف زدہ لگنے لگا کہ میرا اور اُسکا سفر بس یہیں تک ہے۔ وہ باقی دوستوں کے ساتھ بارڈر چلا گیا۔ تین چار دن بعد میں بھی بارڈر پر کام کرنے کے لئے چلا گیا۔ بارڈر پر میں نے دیکھا کہ کوہِ زاد بہت خوش لگ رہا ہے۔ اتنا خوش لگ رہا تھا جیسے کسی قیدی کو جیل سے آزادی ملی ہو۔ ایک مہینے تک ایک ساتھ رہنے کے بعد ہم دونوں بہت اچھے دوست بن گئے۔ تو کوہِ زاد نے مجھے کہا کہ سنگت میرا نام کوہِ زاد نہیں ودود ساتکزئی ہے میں مچھ بولان کا رہنے والا ہوں میں پہلے لاپتہ بھی ہوا ہوں۔ تو میں نے پوچھا سنگت کونسے تنظیم میں تھے کہ آپکو لاپتہ کیا گیا۔ سنگت مسکرا کر کہنے لگا کہ سنگت میں کسی تنظیم میں نہیں تھا۔
میں نے پوچھا کسی تنظیم سے رابطہ کیا ہوگا شائد اِس وجہ سے لاپتہ ہوئے ہو ۔ اُس نے کہا کہ نہیں سنگت میں نے آج تک کسی تنظیم والے کو دیکھا تک نہیں ہے۔ کہنے لگا کہ سنگت میں بولان کے ہر پہاڑ پر صرف اِس لیے گیا ہوں کہ شاید مُجھے کوئی سرمچار مِل جائے اور میں اُنکے ساتھ چلا جاؤں پر افسوس میں نے ایک بھی سرمچار نہیں دیکھا۔ کابوہی سے لیکر مارگٹ، بی بی نانی سے لیکر گُوکورت، پیرغیب سے لیکر کیرتا، کولپور سے لیکر ڈاڈر تک ہر پہاڑ پر سنگتوں کو ڈھونڈا۔ لیکن ایک بھی سنگت نظر نہیں آیا۔ کہنے لگا کہ بولان میں تو ایک سرمچار سنگت بھی نہیں ہے۔ میں نے کہا یار پھر ہر روز یہ اٹیک کرتے رہتے ہیں بولان میں اور آپ کہتے ہو کہ کوئی سرمچار نہیں۔ تو اُس نے قسم کھا کر کہا کہ سنگت وہ دوسرے جگہ سے آکر اَٹیک کر کے پھر چلے جاتے ہیں۔ میں نے بھی اُسکی بات ایک حد تک مان لیا۔ میں نے کہا پھر آپکو کس لئے جبری لاپتہ کیا گیا تو کہنے لگا یار میں آج تک نہیں جانتا کہ مجھے کیوں لاپتہ کیا گیا لیکن مجھے بس لگتا ہے کہ میرا قصور بس یہی تھا کہ میں جب بھی بولان کے پہاڑوں کو دیکھتا تو مجھے کسی جنت سے زیادہ عزیز لگتے تھے۔
میں اکیلے جاکر کابوہی کے پہاڑوں کو گھنٹوں گھنٹوں تک سینے سے لگا کر سوجاتا تھا۔ بولان کی پانی کو آب زم زم سمجھ کر پیتا تھا۔ میں کئی رات بولان کے پہاڑوں میں سجدہ ریز ہوکر سوجاتا تھا۔ جمعے کے دن جب مُجھے کام سے چھوٹی مِلتا تو میں بولان کی پھاڑوں کا رُخ کرتا اور بدھ کے صبح واپس اپنے کام پر آجاتا۔ گھر واپس نا جاتا تو گھر والوں کو خود اندازہ ہوتا کے ودود بولان کے پہاڑوں میں پکنک کے لئے گیا ہوگا اور کتنے دِن کے بعد آئے گا اسلئے میرے لئے پریشان نہیں ہوا کرتے تھے۔ بس بولان کے پہاڑوں میں گھومنے کی سزا میں مُجھے باغی سمجھ کر جبری لاپتہ کیا گیا اور ساتھ آٹھ مہینوں کی سزا کے بعد شرمندہ ہوکر مجھے چھوڑ دیا گیا۔
جن لوگوں نے مجھے ناحق لاپتہ کرانے میں دلالی کی تھی وہ ڈر گئے تھے کہ کہیں میں اُنکے ساتھ کچھ نہ کر لوں اِس وجہ سے مُجھ سے ہر ہفتے کیمپ میں حاضری لگواتے تھے اور ایک دِن اُن میں سے ایک سے ہاتھا پائی ہوا ۔ وہ بس میری زندگی میں ایک اور مُصیبت کا جڑ بن گیا۔ جس نے مُجھے یہاں بارڈر تک پہنچا دیا۔ پھر یوں ہوا جس سے میرا ہاتھاپائی ہوا اُسے اُسکے اپنے باقی ساتھیوں نے قتل کر کے الزام مُجھ پر اور میرے گھر والے جو چار لوگ ہیں دو ہم بھائی اور دو بہنیں ہیں پر لگایا گیا۔ جس کی وجہ سے میں آج یہاں بارڈر پر ہوں اور باقی سب جیل میں ہیں اور بھائی کا تو پتہ نہیں کے کہاں پر ہوگا۔
یہ درد بھری کہانی سن کر میرا تو جان ہی نکل گیا۔ بس کسی سنگت سے اتنا معلومات مِل سکا کہ ودود کے بہنوں کو عدالت نے ضمانت پر رہائی دی ہے اس معلومات کے علاوہ میں بھی اُسکے لئے اور کچھ نہ کرسکا۔ 2 مہینہ تک ہم ایک ساتھ تھے پھر میںں پَنجگُور چلا گیا اور ودود بارڈر پر تھا میں اسکو بھول گیا اور اُسکا پتہ نہیں کہ اسکو میں آخری وقت تک یاد رہا یہ نہیں۔
اَلبتہ ایک دن سوشل میڈیا پر دیکھا کہ مچھ بولان میں سرمچاروں نے آرمی کے کیمپ پر بہت بڑا حملہ کیا ہے پورا بولان سرمچاروں کے قبضے میں ہے اور اِس حملے میں فدائی سنگت بھی شاملِ ہیں۔ تو اُس رات صبح تک نیوز دیکھتا رہا مُجھے بھی باقی بلوچوں کی طرح نیند نہیں آیا۔ بس دعا یہی تھا کہ سنگت بہت دیر تک لڑتے رہیں۔ اور دماغ میں یہ بھی آرہا تھا کے کتنے فدائی سنگت ہیں کس کس علاقہ سے ہیں۔ جو ناموار سرمچار ہیں بس یہی سوچ تھا کہ اُن سے کون فدائی کے لئے گیا ہوگا۔ لیکن پھر بھی یہ سوچ و گمان میں نہیں تھا کہ بولان کا عاشق بھی اِس جنگ میں شریک ہوگا۔
رات ختم ہوا تھوڑا سا سونے کے بعد پھر سے آنکھیں کھل گئیں پھر نیوز دیکھنے لگا فدائیوں کی وائسز سنتا گیا لیکن کسی کی بھی آواز جانی پہچانی نہیں لگا۔ یہ پورا دِن گزر گیا رات ہوئی پھر سوگیا اگلے دِن بھی یوں ہی نیوز دیکھتے دیکھتے مغرب ہوئی BLA نے حملے کی خاتمے کا اعلان کیا اور لاشوں کی جو تصویر آنے لگے جو تصویر ریاستی دلال شیئر کررہے تھے ایک تصویر جو میں نے دیکھا تو میں حیران و پریشان ہوکر رہ گیا۔ میں رپلائز دیکھنے لگا سب دوست لکھ رہے تھے کہ ریاست فیک افواہیں پہلا رہا ہے لیکن مجھے اُسی وقت پورا یقین ہوگیا کہ جس شخص سے میرا ملاقات ہوا تھا یہ وہی ہے بولان کے پہاڑوں کا عاشق اور حقیقی عاشق ہے۔ وہ پروم کی بارڈر پرتھا لیکن اُسکی آنکھوں میں مُجھے بولان کے پہاڑ نظر آتے تھے۔
مُجھے یقین ہے کہ جب وہ مچھ کے گلیوں میں بندوق اور بارود کے ساتھ گھوم رہا ہوگا تو مچھ کی زمین ایک ماں کی طرح ودود کی پیروں کے لئے نرم ہوا ہوگا۔ مچھ کی ہوائیں ناز کرتے ہوئے ودود کے گالوں کو چومتے رہے ہونگے۔ مچھ کی زمین سمجھ چُکا ہوگا کہ اُسکا عاشق بیٹا آیا ہے آج اسکو قابض فوجیوں سے آزاد کرنے۔ وہ چاند مُجھےابھی بھی یاد ہے پنجگور میں بھی اسطرح نظر آرہا تھا کہ جیسا اسنے ودود کو دیکھا ہو اور صرف اُسکے لئے پورا مچھ کو روشنی دے رہا ہو کہ ودود کی آنکھیں دُشمن کے ہر قدم کو جانچ لیں۔ مچھ بولان کے عاشق نے دو دن تک قابض کو مچھ آرمی کیمپ میں اتنا تھکا دیا اتنا مارا کہ دُشمن قیامت تک نہیں بھول پائے گا۔ قابض کے گن شپ ہیلی کاپٹر بھی مچھ بولان کی شہزادے کا مقابلہ نہ کرسکے۔
آج بھی بولان اور مچھ کے پہاڑوں میں مُجھے ودود کی گونجتی ہوئی آواز سنائی دے رہا ہے کہ دنیا کی اول نمبر آرمی گُنشپ ہیلی کاپٹر بھی میرے سامنے آنے سے ڈر رہے ہیں۔ آخر میں جب BLA نے فدائیوں کا نام ظاہر کر دیا تو اُس لسٹ میں کوہِ زاد سے ودود اُرف شیھک بن چکا تھا۔ ودود کے اِس فیصلہ کے بارے میں نے ایک دن ودود کے اُس سنگت سے پوچھا جو بولان کے پہاڑوں میں اُسکا ہمسفر رہ چکا تھا۔ میں نے پوچھا کہ سنگت ودود نے اتنے کم عرصے میں اتنا بڑا فیصلہ کیسے لیا کیا وہ اپنے دو لاوارث بہنوں کو بھول چکا تھا۔ تو اُس سنگت نے کہا کہ یار میں نے ودود کو بہت سمجھایا تھا کہ تمہیں اپنے گھر والوں کا سوچنا ہوگا اُنکا کیا ہوگا اُنکے اُمید صرف تُم پر ہیں۔ تو سنگت نے کہا کہ ودود نے کہا ہے کہ دنیا میں ہزاروں لوگ ایکسیڈنٹ میں مرتے ہیں اُنکے گھر والے کبھی بھوک سے مر گئے ہیں کیا اور بہت سے سنگت شہید ہوئے ہیں میں نے نہیں سنا ہے کہ اُنکے گھر والے بھوک سے مر چکے ہوں۔ اور میرے گھر والے اتنے وقت نہیں مرے تو آگے بھی نہیں مرینگے۔
استاد اسلم نے بھی تو کہا تھا کہ میرا وارث میرے نظریے پے چلنے والے ہیں خون کے رشتے سے زیادہ میرے لئے میرا نظریہ والے رشتے ہیں۔ خون کے رشتے جب میرے سوچ نظریہ کو سمجھ کر اپنائیگے تو انکو میرے فیصلہ پر ناز ہوگا۔ تو میں بھی حیران رہ گیا کے جو اسکول کے بغیر کسی تعلیمی ادارے میں کبھی گیا نہ ہو اور نہ ہی کسی سیاسی تنظیم سے کبھی وابستہ ہوا ہو اور اتنا پُختہ اور مضبوط سوچ اور نظریہ کا مالک تھا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ بولان کے چشمے اور پہاڑ بلوچ بچوں کی اسطرح تربیت کرتے ہیں کہ کوئی سیاسی ادارہ بھی نہیں کرسکتا ہو ایک بات ضرور کہوں گا کہ ودود تُم نے تو کہا تھا کہ بولان کے پہاڑوں میں کوئی سرمچار نہیں ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ جب تم نے اپنے جیسے بولان کی حقیقی عاشقوں کو ہزاروں کی تعداد میں دیکھا ہوگا تو تُم کو خود کی کاروان پر ناز ہوا ہوگا۔ علی شیر کرد کی سرزمین مچھ بولان بلوچستان کی عاشق ودود نے آج پھر سے مچھ کو علی شیر کرد کی یاد دلائی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔