سرزمین بلوچستان اور پاکستانی ریاست کے درمیان تضاد کی جڑ اور انقلاب
تحریر: راہشون بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان صدیوں سے بیرونی قبضہ گیروں کے حملوں کا ہدف رہا ہے جس کے دفاع میں بلوچ قوم تاریخی مزاحمت کرتی آرہی ہے۔ اس وقت بھی بلوچستان پر پاکستان کا جبری قبضہ ہے، بلوچ قوم 1948ء سے لیکر آج تک اس ریاستی بربریت کا شکار ہے ۔ بچے، خواتین، بوڑھے، نوجوان سب پر پاکستانی ریاست مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے کیونکہ سب کی شناخت ایک ہی قوم سے ہے ۔ پاکستان نے بلوچستان میں جس نوآبادیاتی استحصال و تشدد کا بازار گرم کیا ہوا ہے، اب اس کی بنیادیں ہِل رہی ہیں، اب ہر بلوچ فرزند اس بات سے آگاہ ہے کہ پاکستان کی قبضہ گیریت سے پہلے بلوچستان ایک الگ آزاد ریاست تھا اور رہے گا۔ پاکستان کا ہماری سرزمین پر تسلط فوج کشی کی بنا پر ہے، اس سے ایک دن ضرور نجات ملے گی اور ہم نہیں تو سہی، ہماری آنے والی نسلیں اس غلامی سے آزاد ہوں گی۔
اب بلوچ قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس ظالم ریاست کو ہرگز اپنی مقدس سرزمین پر برداشت نہیں کرے گی اور آنے والی نسلوں کو آزاد بلوچستان کا درس دے گی۔ وہ آزاد بلوچستان جس کےلیے ہمارے جوانوں نے انتہائی شجاعت کے ساتھ قابض ریاست کا مقابلہ کیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
یاد رہے، 27 مارچ 1948ء کے دن کو بلوچ قوم “یومِ سیاہ” (Black day) کے طور پر یاد کرتی ہے، کیونکہ اسی دن ہمارے آزاد وطن پر مختلف سازشوں اور ہتھکنڈوں کے ذریعے قبضہ کیا گیا اور اُسی دن سے بلوچ قوم ریاستی اذیتوں کے نشانے پر ہے، لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ بلوچ قوم روز اول سے اس ریاستی جبر کے خلاف ہر قسم کی مزاحمت کررہی ہے اور آئے دن اس مزاحمت میں شدت آرہی ہے، اسی طرح آتی رہے گی۔ قابض ریاست کے 1948ء کے قبضے کے بعد 1958ء میں ایک بلوچ بزرگ بابو نوروز زہری ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھایا اور اپنے دوستوں کے ہمراہ مسلح مزاحمت شروع کی، لیکن اس بہادر مزاحمت کار کو پاکستانی حکمران قرآن پاک کے نام پر صلح کرنے پہاڑوں سے اترنے کا کہا، بعد میں اُسے ساتھیوں سمیت دھوکا دہی سے گرفتار کیا گیا۔ باقی سات سرمچاروں کو پھانسی دی گئی اور بابو نوروز زہری تا عمر پابند سلاسل رہے۔ اس کے بعد بلوچ بزرگ رہنما اور نڈر لیڈر بابا خیر بخش مری مزاحمت کی راہ اپنائی، وہ صرف اپنی ذات تک کو بلوچستان کےلیے وقف نہیں کیا بلکہ اُس بلوچ رہنما نے اپنے بیٹوں کے پیدا ہوتے ہی اُن کے کانوں میں اذان کے بجائے ‘آزاد بلوچستان’ پُکارا، جن میں سے ایک گوریلا بہادر لیڈر بالاچ مری بلوچ تھا جو کہ اپنے والد کے نظریے کی طرح پہاڑوں کا انتخاب کیا، بہادری سے لڑتا رہا اور شہید ہوگیا۔ بلوچ عوام اس غلامی سے نجات کےلیے ہر طرح کی جدوجہد کرتے رہے ہیں اور مدام کرتے رہیں گے۔ ان قربانیوں کا تسلسل یونہی جاری و ساری رہے گا۔
بلوچ آزادی کی تحریک مختلف مراحل طے کرنے کے بعد شدید مزاحمتی شکل اختیار کرچکی ہے۔ جہاں بلوچ خواتین بھی قومی آزادی کے جذبے سے سرشار ہوکر وطن کےلیے فدا ہورہے ہیں۔ موجودہ تحریک میں بلوچ خواتین کا کردار سرفہرست رہا ہے اور اُن کی بھرپور قربانیوں کی بدولت آج ہر جگہ سے بلوچ خواتین انقلابی سرگرمیوں کا حصہ بن رہی ہیں۔
موجودہ لانگ مارچ اور بلوچ خواتین کا قائدانہ کردار:
دو مہینے قبل بلوچستان کے علاقے مکران میں ریاستی فورس CTD کے ہاتھوں شہید ہونے والے افراد جو کہ جبری طور پر لاپتہ تھے، اُن میں سے ایک کی شناخت بالاچ بلوچ کے نام سے ہوئی تھی۔ اس خبر کو سنتے ہی اُس کے لواحقین نے کہا کہ اُس کو عدالت میں پیش کرنے کے باوجود CTD نے شہید کرکے جھوٹی خبر پھیلائی کہ وہ ایک حملے کے دوران مارا گیا ہے۔ لواحقین اس کی میت دفن کرنے سے انکار کرتے ہیں اور شہید بالاچ اپنے خاندان کے ہمراہ سڑک پر انصاف مانگنے نکلتے ہیں ۔ یوں ہی پورے بلوچ عوام اس جبر اور ریاستی ظلم کے خلاف ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے ہمراہ انصاف کےلیے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے ہی ہر فکر و سوچ کے لوگ اس تحریک کا حصہ بنتے ہیں اور بلوچوں کی ریاستی نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ لیکن ہر بار کی طرح ریاست پھر سے اپنی بےہودہ سازشوں کا استعمال کرکے اس عوامی تحریک کو سبوتاژ کرنے کی ناکام کوشش کرتی ہے، اور دھرنے میں بیٹھی شہید بالاچ کی بہن کو جبری طور پر گرفتار کرکے ریاستی چمچے اُسے کہتے ہیں کہ ہم آپ کو 7 کروڑ روپے دیں گے، آپ اس تحریک کو ختم کریں اور اپنے بھائی کو دفنا دیں لیکن اس بدبخت اور بزُدل ریاست کو اتنی سمجھ نہیں کہ بلوچوں نے غلیظ مفادات کےلیے اپنی سرزمین سے غداری نہیں کی ہے اور نہیں کریں گے۔ کچھ عرصہ بعد یہ تاریخ ساز تحریک ہزاروں نئے چہرے اختیار کرتی ہے اور انصاف کےلیے شال (کوئٹہ) روانہ ہوتی ہے۔ اس تحریک کے نکلتے ہی ریاست مختلف رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے۔ سڑکیں بند کرکے قبضہ گیر ادارے اپنے پالے ہوئے تنخواہ دار دلالوں کے ہاتھوں اس تحریک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں لیکن بلوچ خواتین جو کہ اس تحریک کی رہنمائی کرکے مسلسل آگے بڑھتی ہیں۔ تین دن شال بلوچستان میں دھرنا دینے کے بعد یہ کاروان ریاست کے گھر یعنی اسلام آباد کی جانب گامزن ہوتا ہے جس میں اکثریت بلوچ خواتین کی ہوتی ہے۔ جن میں سے ایک بہادر بلوچ لیڈر ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ ہوتی ہے، جس کے والد کو ریاستی ادارے جبری طور پر لاپتہ کرکے اس کی مسخ شدہ لاش پھینکی، اس دلخراش واقعے کے بعد یہ بیٹی اس قابض ریاست کے ظلم و جبر کے خلاف مزاحم ہے اور بلوچ قوم کی توانا آواز بنتی جارہی ہے۔ جیسے ہی یہ تحریک اسلام آباد روانہ ہوتی ہے، راستے میں ریاستی نمائندے اپنی قوت استعمال کرکے اسے روکنا چاہتے ہیں۔ آخرکار، تحریک اسلام آباد پہنچتی ہے تو پھر سے ریاستی حکام اپنی ظالمانہ روش میں آکر تحریک پر لاٹھی چارج کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین کو گرفتار کرتے ہیں۔ اور ریاستی اہلکار ہماری بوڑھی ماؤں اور نوجوان بہنوں کے دوپٹے کھینچتے ہیں اور انہیں اذیت دیتے ہیں۔ وہیں پر تحریک کے شرکا دھرنا دیتے ہیں۔ افسوس کہ اس ریاست کو یہ بھی ہضم نہیں ہوتا، اس ڈرپوک ریاست کو ان بوڑھی ماؤں سے ڈر ہے جو کئی سالوں سے اپنے پیاروں کی تصاویر لےکر سڑکوں پر انصاف کےلیے ترس رہی ہیں۔
اس تاریخ ساز تحریک کا اسلام آباد تک جانے کا ایک ہی مقصد اور مطالبہ ہوتا ہے، وہ یہ کہ بلوچ نسل کُشی کو ہر صورت ختم کی جائے اور جبری طور پر لاپتہ افراد کی صحیح سلامت بازیابی کا عمل ممکن بنایا جائے۔ لیکن قابض پاکستانی ریاست کو اب یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ جتنا بھی ہماری قوم پہ ظلم کرے اور وطن پر مسلط ہوجائے، ایک دن اس کا انجام اُسے ملے گا۔
بلوچستان میں بسنے والے تمام ضمیر فروش اور غیرت سے عاری سرداروں اور نوابوں کو شرم کے مارے ڈوبنا چاہیے کہ اُن کے سامنے اُن کی اپنی قوم غیروں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہے پھر بھی وہ کچھ مفادات کی خاطر ریاست سے مراعات لےکے بلوچستان کی مٹی سے غداری کرتے ہیں۔ نوآبادیاتی اسمبلی میں جاکر خود کو غیرت مند بلوچ ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ اُن سب وطن دشمن حکمرانوں سے میرا سوال یہ ہے کہ، کہاں ہے آپ لوگوں کی بلوچی غیرت ؟ جب آپ کے سامنے ماؤں اور بہنوں کی عزت محفوظ نہیں جہاں ہر روز مظلوم قوم کو ریاستی ظلم کا سامنا ہے۔ کہاں ہے ان نام نہاد سیاستدانوں کا زندہ ضمیر جو خود کو بلوچ قوم کا وفادار کہہ کر ساحل و وسائل کی حفاظت کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ جبکہ بلوچ قوم کا ایک ایک گھر بھی ریاستی ظلم و جبر سے محفوظ نہیں ہے۔ تو پھر ایسے سیاست دانوں کی کیا ضرورت؟ جو چند ذاتی مفادات کے حصول کےلیے اپنی گلزمین اور اپنے عوام سے دغا بازی کرتے ہیں۔ ان تمام تر بےضمیر سرداروں اور سیاستدانوں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ سب سے بڑے غدار وہ ہیں جوکہ اپنا سب کچھ پاکستانی فوج کے سپرد کرچکے ہیں۔ اگر یہ سیاستدان اقتدار میں آکے اپنے حقوق مانگنے والے بلوچوں کو غدار کہتے ہیں تو پھر آج کیوں وہ ان غدار بلوچوں کے نام پر الیکشن لڑ رہے ہیں؟
چاہے وہ سردار اختر مینگل ہو یا ثناء بلوچ ہو یا کوئی بھی پارلیمانی سیاست دان وہ بلوچ قوم کا نعرہ اپنے مفاد کےلیے استعمال کررہے ہیں اور بالکل بھی ہمارے رہنما نہیں بلکہ دشمن کے اتحادی ہیں۔ اب بلوچوں کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ اگر ہم اس نوآبادیاتی مشینری سے آزادی چاہتے ہیں تو ہمیں ان کے خلاف سرِعام بغاوت کرنا ہوگی، اپنی آنے والی نسلوں کےلیے اِن سرداروں کے غلبے سے پاک سماج کی جدوجہد کرنا پڑے گی اور ایک آزاد و ترقی پسند نظام کا راستہ ڈھونڈنا پڑے گا۔
ایک طرف پارلیمنٹ کے سیاسی مداری ہیں تو دوسری جانب مذہبی گروہوں کا حلقہ ہے جو مذہبی بنیادوں پہ بلوچ قوم کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے ریاستی بیانیے کو تقویت دینا چاہتا ہے۔ اس پہ بھی واضح ہو کہ اب وہ بلوچوں کی یکجہتی کو مذہبی فرقہ واریت سے ختم نہیں کرسکتا۔ ہم سب بلوچ ہیں اور ایک ہی قوم سے ہیں۔
قرآن مجید میں یہ صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ انسان کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز اُٹھانی ہے، مزاحمت کرنی ہے۔ تو پھر کیوں ان قرآنی اصولوں کا بلوچ قوم پر اطلاق نہیں کیا جاسکتا؟
شال میں ہونے والے عوامی جلسے کے بعد بعض نام نہاد مولوی تنقید کررہے ہیں کہ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ بھارتی ایجنٹ ہے، سب سے پہلے تو انہیں سمجھنا ہوگا کہ بلوچ تحریک اور اس عوامی جدوجہد کے ساتھ بھارت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔
سب سے بڑے ریاستی نمائندے وہ خود ہیں جو چند مفادات کےلیے بِک رہے ہیں اور نوآبادیاتی جبر پہ خاموش بیٹھے ہیں۔
بلوچ اب غلامی کو قبول نہیں کرتے اور مزید غلام بننا نہیں چاہتے ہیں۔ یہ بے ضمیر سردار اور نواب اچھی طرح سمجھ لیں کہ وہ بلوچستان کے ساتھ 75 سالوں سے غداری کررہے ہیں، اور اب وقت آگیا ہے، ان غداروں کو سبق سیکھنا چاہیے کہ یہ ریاست بلوچستان پر چاہے جتنا ظلم کرے، جیت ہمارا مقدر ہے ۔ ریاستی گماشتے جتنی بھی مذہبی فرقہ واریت یا سرداری نظام کے نام پر قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کریں اب اس انقلاب کو نہیں روک سکیں گے، اُن کو احساس دلانے وہ گھڑی آگئی ہے کہ:
“اے ظالم نی اخس ظلم کریس کر لیکن دا ہیت اے یاد کیس کہ صوب ننا اے”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔