برطانیہ کے ویسٹ منسٹر ہال میں لیبر پارٹی کے رہنما اور ممبر پارلیمنٹ جان میکڈونل اور دیگر اراکین پارلیمنٹ نے بلوچستان میں انسانی حقوق کے صورتحال پہ مباحثہ کیا اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔
انہوں نے بلوچستان کی سیاسی تاریخی اور جغرافیائی اہمیت پہ بھی بحث کی۔
جان میکڈونل نے نقطہ آغاز میں کہا کہ اس ایوان نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پہ غور کیا ہے، بلوچستان کے خطے میں ایک اہم اسٹریٹیجک پوزیشن ہے جو وسط ایشیا میں قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، بلوچ قوم کے وہاں صدیوں سے آباد ہونے پر اس کا نام بلوچستان رکھا گیا ہے –
بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے جم شینن نے کہا کہ ہم نے بلوچ خواتین کے تاریخی مارچ کے حوالے سے سنا ہے جس میں پاکستانی فوج کی طرف سے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، فوجی آپریشن اور بلوچوں کے خلاف ریاستی جبر کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے، یہ دل دہلانے والے انسانیت سوز مظالم بند کیے جائیں، ہم ان حقائق کو کو اجاگر کرنے کیلئے ہر ممکن سفارتی کوشش جاری رکھیں گے –
جان میکڈونل نے مزید کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہے ہیں جو اس پارلیمنٹ اور عالمی برادری کی توجہ کے متقاضی ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے اس خطے میں وسیع پیمانے پہ ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پہ دستاویزات مرتب کیے ہیں اور انکی مذمت کی ہیں، ان اداروں نے ان خلاف ورزیوں کے ذمہ دار پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے حاصل ہونے والے استثناء کو بھی اجاگر کیا ہے اور سیکورٹی اداروں کے احتساب کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ تشویشناک پہلو جبری گمشدگیاں ہیں جسے خوفناک عمل قرار دیا جا سکتا ہے، پاکستانی سیکیورٹی فورسز اس عمل کا ارتکاب کر رہے ہیں، لاپتہ افراد کو کسی بھی قانونی عمل کے بغیر لے جایا جاتا ہے ان کے تمام رابطے ختم کیے جاتے ہیں۔ فیملی سے ملنے نہیں دیا جاتا انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور بیشتر کو تشدد کے بعد مردہ حالت میں انکی لاشیں پھینک دی جاتی ہیں جنکے جسموں پہ تشدد کے نشانات ہوتے ہیں –
انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ دنوں ایک تاریخی لانگ مارچ جسکی قیادت خواتین نے کہ کوئٹہ سے اسلام آباد مارچ کیا، اسٹرینگ فورڈ کو کوٹ کرتے ہوئے “اس مارچ کا مقصد جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل اور پاکستانی فوجی کی ریاستی بربریت کے خاتمے کا مطالبات تھے” جبکہ مارچ کو اسلام آباد میں ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑا
اس موقع پر لیبر پارٹی کے زرہ سلطانہ نے بلوچستان کے خواتین کی ہمت کو سراہتے ہوئے لانگ مارچ کی حمایت کی اور کہا کہ اس مارچ نے خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں شعور اجاگر کیا ہے-
انہوں نے افغان مہاجرین کے ساتھ پاکستانی ریاست کی بدسلوکی کے بارے میں اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ہمیں اطلاعات موصول ہو رہے ہیں کہ مہاجرین کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جا رہا ہے۔
جان میکڈونل نے مزید کہا کہ بلوچ ڈائسپورا میں انسانی حقوق کیلئے سرگرم تنظیموں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پہ آزادانہ تحقیقات اور ذمہ داروں کو جوابدہ کرنے اور انہیں سزا دلانے کا مطالبہ کیا ہے، چیلنجز اور خطرات کے باوجود بلوچ سیاسی کارکنان اپنے مقصد کے بارے بیداری پیدا کرنے مختلف پلیٹ فارمز پہ جاتے ہیں۔
انکے مطالبات واضح ہیں کہ فوجی کارروائیوں کا خاتمہ ہو، تنازعات کا پرامن حل ضروری ہے، انسانی حقوق کا تحفظ اور انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کا خاتمہ، بلوچ عوام کے وسائل، حقوق اور شناخت کا تحفظ لازمی ہونا چاہیے –
انہوں نے کہا کہ بلوچ عوام قابض قوتوں سے اپنے سرزمین کی مکمل آزادی چاہتی ہے، بلوچ عوام گورننس اور پالیسی سازی اور اپنے تقدیر کے تعین میں حصہ لینے کے خواہش رکھتے ہیں –
انہو نے آخر میں کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہ بحث بلوچستان کے لوگوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے جاری مزاکرات کا آغاز ہوگا، میں سمجھتا ہوں میں نے جن خدشات کا اظہار کیا وہ حکومت اور ایوان کی تمام سیاسی جماعتوں کے ذریعے شیئر کی گئی ہیں، ہمارے لیے مسئلہ یہ ہے کہ ہم بلوچ عوام کی آزادی کے تحفظ کو یقینی بنانے میں پاکستانی حکومت کو مؤثر اثر و رسوخ کیلئے کس طرح آگے بڑھتے ہیں۔