تفصیلات کے مطابق خضدار کے علاقے گریشہ سے یونس نامی سرکاری استاد نے بیوہ عورت بسراں کی کمسن بچی کو اغوا کرکے تربت میں جبری شادی کرلی۔
باوثوق ذرائع کے مطابق بچی کمسن ہے اور یونس بچی کا رشتہ دار ہے انہوں نے بچی کے ماں بیوہ بسراں کو قائل کرلیا کہ وہ بچی کو تعلیم کے لیے لے جائے گا لیکن تعلیم کے نام پر بچی کو اغوا کرکے نکاح کرلی۔
آج بچی کی والدہ اور ماموں محمد عالم نے نال پولیس تھانے میں ابتدائی رپورٹ درج کرنے گئے تاہم حکام نے ایف آئی درج نہیں کی۔
متاثرہ خاندان کے مطابق کے مطابق جب وہ پریس کانفرنس کے لیے خضدار پریس کلب گئے تو سینئر صحافیوں نے کہا کہ اتنی اہم انسانی مسئلے پر اتنی دیر کیوں کردی، ہم کیساتھ بھرپور تعاون کرینگے۔
تاہم پریس کانفرنس لائیو چلانے کے بعد خضدار پریس کلب کے فیس بک سے پریس کانفرنس ڈلیٹ کردی گئی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ کو صورت حال سے واقف شخص نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اغوا کرنے والا گروہ علاقے اثر و رسوخ رکھتا ہے اور انہیں سرکاری حمایت یافتہ لوگوں کی مدد حاصل ہے جبکہ متاثرہ خاندان انتہائی غریب اور کمزور ہے
انہوں نے بتایا کہ ممکنہ طور پر باؤ میں آکر خضدار پریس کلب نے ویڈیو ڈلیٹ کردی ہو۔
بچی کی ماں نے اپنے ویڈیو میں کہا میری بچی کی عمر چودہ سال ہے جبکہ میرے بیٹے کا رشتہ یونس ہی بھتیجے سے طے ہوا تھا۔
اب میری بچی کو میری علم میں لائے بغیر (گریشہ سے) لے جاکر زبردستی نکاح کرلی ۔
بسراں نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہہ رہے ہیں کہ “یونس نے مجھے کہا کہ لڑکے (یونس کا بھتیجا) اور بچی (بیوہ بسراں کی بچی) دونوں میرے فرزند ہیں، میرے آپ کے بچی کی باپ ہوں لہٰذا آپ مطمئن رہیں ۔
بسراں نے بتائی کہ انہی باتوں سے میں نے دھوکہ کھائے اور تعلیم کے نام پر اپنی بچی یونس کے حوالے کی اور انہوں ایک معصوم کے ساتھ زبردستی شادی کرلی۔
لواحقین نے پولیس کی طرف سے درج کرنے نہ پر پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا ہے اور انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں۔