کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ
مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5360 ویں روز جاری رہا۔
اس موقع پر بی ایس او کے چئیرمین چنگیز بلوچ، وائس چئیرمین چئیند بلوچ، مرکزی کمیٹی کے اراکین حسیب بلوچ، غفار بلوچ اور نصیر بلوچ ساتھیوں سمیت آکر اظہار یکجہتی کی۔
تنظیم کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کئی برسوں سے جاری ہے یہ بلوچستان میں چھٹا فوجی آپریشن ہے جو ایک انوکھے انداز میں 2002 سے تاحال جاری ہے جس کے باعث ہزاروں بلوچ فرزند پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری اغواء ہوکر ریاستی ٹارچر سیلوں میں مختلف ازیتیں سہہ رہے میں اور اس دوران کئی ہزار بلوچ فرزندوں کو ماورائے قانوں شہید کیا گیا ہے جن کی تشدد زدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ توتک خضدار میں سینکڑوں لاپتہ افراد کی اجتماعی قبروں میں کئی لاپتہ بلوچوں کی لاشیں برآمد ہونا قابض کی وحشیانہ فطرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں پاکستان ریاست اپنے رٹ کو قائم کرنے کے لئیے ہر قسم کے ہتھکنڈے بلوچ قوم پر آزما رہی ہے تاکہ بلوچ قوم کو زیر کرکے بلوچ قوم کی نسل کشی اور وسائل کی لوٹ مار جاری کرسکے لیکن بلوچ قوم کے لئیے کبھی بھی یہ بات قابل قبول نہیں رہی ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ 19 فروری کو علی الصبح بولان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ آج تیسرے روز گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اندھا دھند شیلنگ و بمباری کی جارہی ہے جبکہ کئی بےگناء بلوچوں کو جبری لاپتہ کردیا گیا ہے۔