اقتدار کی بھوک اور ریاست کا اصل چہرہ
تحریر: حمل نذر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اقتدار کے بھوکے اور بلوچ دھرتی کے سوداگر اب کھل کر اپنا اصل چہرہ عوام کے سامنے عیاں کررہے ہیں۔ بات اگر چند دن یا ایک ماہ پہلے کی کریں تو وہ دن کوئی ذی شعور بلوچ نہیں بھول پائے گا جب بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری لانگ مارچ یا دیگر احتجاجی مظاہروں میں یہ ایک دن بھی سامنے نہیں آئے مگر نام نہاد الیکشن میں اپنا موقع نہ پانے پر عوام کو احتجاج کے نام پر سخت سردی میں کس طرح بھوکے پیاسے رکھ کر سڑکیں بند کرکے اپنا اصل چہرہ دکھا رہے ہیں۔
نام نہاد بلوچ قوم پرست اور نام نہاد بلوچ سیاسی قوتیں ریاستی سلیکشن میں اپنا مخصوص حصہ نہ پانے پر سراپا احتجاج ہیں مگر بلوچ نسل کشی اور بلوچ وسائل کی لوٹ مار، بلوچوں کی جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل پر انکا احتجاج اور مذمت یا تو سطحی ہوتا ہے یا پھر یہ انکا درد سر ہے ہی نہیں۔
اقتدار کی ہوس لیے، بلوچ خون اور وسائل کے سوداگر کھبی بھی بلوچ قوم کے غمخوار نہیں ہوسکتے ان کا کام صرف بلوچ کارڈ کو استعمال کرکے بلوچ نسل کشی کا آلہ کار اور سہولت کار بننا ہی ہے کیونکہ یہ پارلیمنٹ اور سینٹ ان کے لیے کاروبار کے بہترین ذرائع ہیں۔ یہ پارلیمنٹ برائے نام قانون ساز ادارے کم مگر بلوچ قوم پرستوں کو خریدنے اور بلوچ وسائل کا سودا کرنے کی منڈی زیادہ ثابت ہوے ہیں۔
بلوچ قوم اور دیگر اقوام کے سامنے یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ ریاست کے پیش کیے گئے نام نہاد بلوچ نمائندے اصل میں ریاستی آلہ کار ہیں۔ جن کو بلوچ قومی مفاد سے کوئی غرض نہیں، جو بلوچ کی آواز دبانے یا بلوچ احتجاج کو دبانے یا اسے کوئی اور رخ دینے کی ہر وقت کوشش میں ہیں۔ آج نام نہاد الیکشن میں ہیر پھیر پر سراپا احتجاج ہیں اور سڑکیں بند کرکے ہزاروں مسافروں کو مزید تکالیف اور اذیت سے دوچار کررہے ہیں۔
ہزاروں بلوچوں کی جبری گمشدگی، مسخ شدہ لاشوں کا ملنا، بلوچوں کی ماورائے عدالت قتل، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ اور احتجاج پر تشدد، اسلام آباد میں بلوچ خواتین کی تذلیل اور انکی گرفتاری پر نام نہاد قوم پرستوں کا ضمیر کیوں نہیں جاگا جبکہ اس وقت انہوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھا اور تماشائی کا کردار ادا کرتے رہیں تاکہ ان کی پارلیمانی نوکری کو کوئی خطرہ نہ ہو۔
کتنی حیرانگی کی بات ہے کہ بلوچوں کے خون سے رنگین ہاتھوں کے ساتھ اور بلوچ وسائل کے لوٹ مار میں شامل شراکت دار ضیاء لانگو بھی اپنی ہار کا ماتم کرکے حق اور سچ کے ساتھ خود کو کرپشن سے پاک و صاف ظاہر کرنے کی کوشش میں ہے اسی طرح مکران سے ڈاکٹر مالک بلوچ نام نہاد الیکشن میں اس ہیر پھیر کو بلوچ قوم کے خلاف ایک سازش قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح دیگر قوم پرست سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار بھی اس کو ایک سازش گردانتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج تک ریاستی اداروں کی مرضی کے بغیر کوئی پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بن سکتا۔
اس ریاستی کھیل کے خلاف ایک تحریک چلانے کی باتیں بھی گردش میں ہیں جبکہ یہ کھوکھلےنعرے ہی ثابت ہونگے اور ریاست پر انکا کوئی اثر نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ تحریک بلوچ مفاد میں ہوگا کیونکہ یہ عمل صرف چند خاندانوں کے مفاد میں ہے جس سے سادہ لوح بلوچوں کو ان سے دور رکھنا اور رہنا ہی بہتر ہے۔
اس نام نہاد الیکشن اور کٹھ پتلیوں کی سلیکشن کا ایک مثبت پہلو یہ رہا ہے کہ حقیقی ٹرن آوٹ کو اگر دیکھا جائے تو بلوچ قوم نے اس کھیل کو مسترد کردیا ہے اور دوسری جانب یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ پارلیمنٹ میں ان لوگوں کو نوکری دی جائے گی جو ریاستی اداروں کے آلہ کار اور سہولت کار ہونگے اور بلوچ نسل کشی کا کھل کر دفاع کرینگے کیونکہ ڈیتھ اسکواڈکی رہنمائی کرنے والوں کے حق میں فیصلے اور راتوں رات نتائج میں تبدیلی بلوچ قوم کے حوالے سے زیرو ٹالرینس پالیسی پر مہر ثبت کررہا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔