ہزاروں افراد کا یہ مظاہرہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ہاتھوں اسرائیلی شہریوں کے یرغمال بنا لیے جانے کے سو روز مکمل ہونے پر شروع کیا گیا۔ اس مظاہرے میں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ان یرغمالیوں کی بحفاظت رہائی کو یقینی بنائیں۔
اس بڑے اجتماع میں مظاہرین نے اس ریلی میں ”اور دنیا بدستور خاموش ہے‘‘ کے بینر بھی اٹھا رکھے تھے جب کہ وہ ”یرغمالیوں کی رہائی: ابھی، ابھی، ابھی‘‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔
یہ اسرائیلی شہری حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کو اپنی پہلی ترجیح بنائے۔ واضح رہے کہ حماس اور غزہ سے تعلق رکھنے والے دیگر عسکریت پسندوں نے سات اکتوبر کو ایک حملے میں قریب ساڑھے گیارہ سو اسرائیلی شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا جب کہ تقریباً ڈھائی سو دیگر کو وہ یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔
ان یرغمالیوں میں سے تقریباً سو کو بعد میں قطری اور مصری ثالثی میں عارضی فائربندی کی ڈیل کے نتیجے میں رہا کر دیا گیا تھا۔ غزہ میں حماس کے قبضے میں موجود باقی 132 یرغمالیوں میں سے تقریباً دو درجن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ مارے جاچکے ہیں۔ ان یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اب تک کسی نئی ڈیل سے متعلق کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ماکروں کی نئی اپیل
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ایک مرتبہ پھر اپیل کی ہے کہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں بات چیت کا آغاز ہونا چاہیے، ”فرانسیسی قوم کا عزم ہے کہ سات اکتوبر کے دہشت گردانہ حملے میں یرغمال بنائے گئے تمام افراد رہا ہوں۔‘‘
واضح رہے کہ یرغمال بنائے گئے ان باقی ماندہ افراد میں تین فرانسیسی شہری بھی شامل ہیں۔ اسی تناظر میں ماکروں نے آن لائن پوسٹ کیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا، ”فرانس اپنے بچوں کو لاوارث نہیں چھوڑتا، اس لیے ہمیں ان یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بار بار گفتگو شروع کرنا ہے۔‘‘
غزہ کا دکھ انسانیت کے لیے داغ ہے، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کی جانب سے اسی ویک اینڈ پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں ہیومینیٹیرین صورتحال انسانیت پر لگے ایک داغ کے برابر ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف ایک بڑی عسکری کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین کے سربراہ فیلیپے لازارینی کے مطابق غزہ میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں، تباہی، لاکھوں انسانوں کا بے گھر ہو جانا، بھوک اور دکھ ، یہ سب کچھ وہ ہے جو انسانیت کے دامن پر لگا ایک داغ ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف انتہائی دل خراش حملے کیے گئے، جب کہ سن 1948 کے بعد فلسطینیوں کے لیے اپنے گھر بار چھوڑنے کا یہ آج تک کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ ”جنگ کی وجہ سے بہت سے فلسطینیوں کو جسمانی اور ذہنی زخم لگے ہیں۔ بڑی تعداد میں عام شہری جن میں بچے بھی شامل ہیں، شدید دھچکے کا شکار ہوئے ہیں۔‘‘
لازارینی نے مزید کہا، ”لوگ اس وقت انتہائی مخدوش حالات میں رہنے پر مجبور ہیں اور بچوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ غزہ کے باشندوں کی ہلاکتیں روکنے کے لیے کوئی فائر بندی ابھی تک نہیں ہو پائی اور نہ ہی جنگ کی وجہ سے عام انسانوں کو پانی، چھت، خوراک اور ادویات کی ترسیل ممکن ہو پا رہی ہے۔‘‘