لبنان میں صرف گزشتہ ہفتے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں حزب اللہ کے ایک کمانڈر ہلاک ہوئے، حزب اللہ نے ایک حساس اسرائیلی فوجی اڈے پر راکٹوں سے حملہ کیا اور اسرائیل نے بیروت میں ایک فضائی حملے میں حماس کے ایک سینئر عسکریت پسند کو ہلاک کر دیا۔ ہر حملے اور جوابی حملے سے غزہ میں ہولناک جنگ کے پورے خطے میں پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
حماس کو ممکنہ طور پر امید تھی کہ سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر اس کا حملہ، جس نے غزہ میں جنگ شروع کی، اس کے اتحادیوں کو ایک وسیع تر تصادم کی طرف لے جائے گا ۔ اسرائیل کی جانب سے لبنان میں حکمت عملی کی تبدیلی کے بارے میں بیانات میں اضافہ ہو رہا ہے اگرچہ واشنگٹن تنازعے کو پھیلنے سے روکنا چاہتا ہے ۔
اب جب کہ شطرنج کا یہ کھیل مزید پیچیدہ شکل اختیار کر رہا ہے، غلط اندازوں کا امکان بڑھ رہا ہے۔
غزہ گراؤنڈ زیرو ہے ۔
حماس کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کو اس کا حملہ اسرائیلیوں کے عشروں کے غلبے پر فلسطینیوں کا خالصتاً ایک رد عمل تھا۔ اس بارے میں کوئی شواہد نہیں ہیں کہ ایران ، حزب اللہ یا کسی دوسرے اتحادی گروپ نے کوئی براہ راست کردار ادا کیا ہے یا اس بارے میں انہیں کوئی پیشگی علم تھا۔
لیکن جب اسرائیل نے جوابی طور پر غزہ میں جو 23 لاکھ فلسطینیوں کا ایک محصور شہر ہے، 21 ویں صدی کی ایک انتہائی تباہ کن فوجی مہم شروع کی، تو مزاحمت کے محور نامی، ایران اور عسکریت پسند گروپس کو، جن کی حماس پورے خطے میں حمایت کرتا ہے، رد عمل کے اظہار کے لیے دباؤ کا سامنا ہوا۔
فلسطینی نصب العین کی خطے بھر میں جڑیں ہیں، اور حماس کو اسرئیل کے اشتعال کا سامنا کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے، سے وہ فوجی اتحاد متاثر ہو سکتا تھا جسے ایران 1979 میں اس وقت سے مضبوط کرر ہا ہے جب پاسداران انقلاب نے مغرب کے ساتھ ٹکراؤ کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔
حزب اللہ کے بارے میں لبنان کے ایک ماہر قاسم قاصر کا کہنا ہے کہ ،” وہ جنگ نہیں چاہتے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ اسرائیل کو کسی جوابی کارروائی کے بغیر حملے جاری رکھنے دیں۔”
حزب اللہ سب سے زیادہ مشکل میں
ایران کی تمام علاقائی پراکسیوں میں سب سے زیادہ حزب اللہ کو دوہری مشکلات کاسامنا ہے ۔
حزب اللہ نے غزہ میں جنگ چھڑنے کے بعد لگ بھگ ہر روز سرحد کے ساتھ حملے کیے ہیں جن کا بظاہر مقصد اسرائیل کے کچھ فوجیوں کو مارنا تھا ۔ اسرائیل نے جوابی فائرنگ کی ہے لیکن دونوں فریق ہر صورت حال کی شدت کو محدود رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہفتے کو حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی فوجی اڈے پر کم از کم 40 راکٹوں کے حملے نے جنگ شروع کیے بغیر ایک پیغام بھیجا، اگرچہ اس کے نتیجے میں پیر کا حملہ ہوا۔ کیا 80 راکٹوں کا حملہ زیادہ دور ہے؟ کیا ہوتا اگر ان حملوں میں کوئی مارا جاتا؟ کتنی ہلاکتیں ایک بھر پور جنگ کے لیے کافی ہو سکتی ہیں۔ اس مشکل سوال کا کوئی واضح جواب نہیں ہے ۔ اور ماہرین کہتے ہیں کہ اس کےلیے ایک واحد حملہ کافی نہیں ہوسکتا۔
اسرائیل لبنان کی سرحد کے قریب خیموں سے اپنے ہزاروں شہریوں کی لبنان کے ساتھ واقع سرحد کے قریب ان کمیونٹیز میں واپس جاتےدیکھنے کا عزم رکھتا ہے جنہیں لگ بھگ تین ماہ قبل حزب اللہ کی فائرنگ کی وجہ سے خالی کرا لیا گیا تھا۔ سات اکتوبر کے بعد اسرائیل اب سرحد کی دوسری جانب ممکنہ طور پر ایک مسلح حزب اللہ کی موجودگی زیادہ دیر برداشت نہیں کرسکے گا۔
اسرائیلی رہنما بار بار اس صورت میں طاقت کے استعمال کی دھمکی دے چکے ہیں اگر حزب اللہ نے 2006 کی اس جنگ بندی کا احترا م نہ کیا، جس کے تحت عسکریت پسند گروپ کو سرحد سے پیچھے ہٹنے کا حکم دیا گیا تھا۔
تل ابیب یونیورسٹی میں اسرائیل کے انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز کے ایک سینئر ریسرچر یوئل گوزینسکی نے کہا ہے کہ ، ” کوئی بھی فریق جنگ نہیں چاہتا لیکن دونوں فریقوں کو یقین ہے کہ یہ ناگزیر ہے۔”
انہوں نے کہا کہ اسرائیل میں ہر ایک کا خیال ہے کہ اب یہ صرف کچھ دیر کی ہی بات ہے جب ہمیں حقیقت کو بدلنے کی ضرورت ہو گی ، تاکہ لوگ اپنے گھروں کو واپس آسکیں۔”
یہ جنگ کیسے ختم ہوگی؟
علاقائی کشیدگیاں امکان ہے کہ اس وقت تک بڑھتی رہیں گی جب تک اسرائیل غزہ میں اپنی وہ کارروائی جاری رکھے گا جن کا بقول اس کے، مقصد حماس کو کچلنا ہے ۔ لیکن بہت سوں کا خیال ہے کہ فلسطینی معاشرے میں گروپ کی مضبوط جڑوں کے پیش نظر ایسا ہونا بظاہر ممکن نہیں دکھائی دیتا اور اسرائیل کے اپنے لیڈر کہتے ہیں کہ اس میں مزید کئی مہینے لگیں گے ۔
امریکہ کو، جس نے اسرائیل کی کارروائی کے لیے اہم فوجی اور سفارتی مدد فراہم کی ہے، بڑے پیمانے پر وہ واحد طاقت سمجھا جا رہا ہے جو اس جنگ کو ختم کراسکتی ہے ۔
ایرا ن کے اتحادیوں کا بظاہر خیال ہے کہ واشنگٹن صرف اس صورت میں اس میں داخل ہوگا اگر اسے خود بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے، یعنی امریکی اڈوں اور بین الاقوامی جہاز رانی پر حملے ۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سر براہ جوزف بوریل اور جرمن وزیر خارجہ اینالینا بئیر بوک سب سفارت کاری کے ذریعے تشدد کو روکنے کی کوشش کے مقصد سے اس ہفتے دوبارہ خطے میں واپس آ رہے ہیں ۔