بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا ہے ڈاکٹر منان بلوچ اور ساتھیوں کی آٹھویں برسی کے موقع پر تمام زونز ، چیپٹرز اورسیل سسٹم یادگاری ریفرنسز اور پروگرامات کا انعقاد کریں اورسوشل میڈیا میں ہیش ٹیگ #MartyrsOfMastungکواستعمال کرکے اپنے عظیم رہبر اور ساتھیوں کوخراج عقیدت پیش کریں۔ ڈاکٹر منان بلوچ، بابو نوروز بلوچ، اشرف بلوچ، حنیف بلوچ اور ساجد بلوچ کو 30جنوری 2016 کو پاکستانی فورسز نے مستونگ میں بی این ایم کے سینئر ممبر اشرف بلوچ کے مہمان خانے میں علی الصبح گھس کر اندھادھند فائرنگ کرکے شہید کیا۔ ڈاکٹرمنان بلوچ بی این ایم اور بلوچ قومی تحریک کو منظم کرنے اور مختلف دھڑوں میں تقسیم اور آپسی چپقلشوں کو ختم کرنے کے سلسلے میں مستونگ اور گرد و نواح کے دورے پر تھے۔
ترجمان نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ بی این ایم نے ایک اہم رہنما کی قربانی دی ہو بلکہ بی این ایم کی تاریخ قربانیوں سے بھری ہے۔ اس میں پارٹی کے بانی سربراہ واجہ غلام محمد بلوچ سے لے کر عام کارکنوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے تاریخ رقم کی ہے۔ چیئرمین غلام محمدبلوچ کی شہادت کے بعدپارٹی کے متعدد مرکزی رہنماؤں نے اپنی لہو کا نذرانہ دے کرجدوجہد کو زندہ رکھا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ، غفور بلوچ اور رمضان بلوچ سمیت کئی رہنماء سالوں سےپاکستانی فوج کے خفیہ زندانوں میں اذیتیں برداشت کر رہے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ واجہ غلام محمد کی شہادت کے بعد ریاست خوش فہمی کا شکار تھی کہ چیئرمین غلام محمدکی شہادت سے پارٹی ختم ہوگی لیکن ڈاکٹر منان بلوچ و ساتھیوں نے ریاستی جبر کا مقابلہ کرکےموثر انداز میں بی این ایم کو برقرار اور منظم رکھا۔ ڈاکٹر منان بلوچ نے بلوچستان کے کونے کونے میں دورہ کرکے بی این ایم کے پروگرام اور بلوچ قومی تحریک آگاہی کے لیے شب و روز محنت کی ۔ اس کے اثرات اور ثمرات ہم آج دیکھ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا شہدائے مستونگ میں بابو نوروز ایک نوجوان مصنف، دانشور تھے، وہ بی این ایم کے پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ اپنے قلم سے بھی بلوچ قومی مسئلے کو اجاگر کرنے اور قوم کو آگاہی دینے میں مصروف تھے۔ کم عمری میں شہادت پانے والے ساجد بلوچ، بی این ایم کے سینئر ممبران اشرف بلوچ اور حنیف بلوچ نے اپنی سیاسی سفر میں بلوچ قومی تحریک میں اپنا نمایاں کردار ادا کرکے اپنی آخری سانس اور خون کےآخری قطرے بھی بلوچ قومی تحریک کی آبیاری کے لیے قربان کردیں۔ ان کی قربانیاں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔