پاکستان کے جوابی حملے کے بعد ایران کی ایئر ڈیفنس سسٹم کی مشقیں

787

سیستان بلوچستان میں اہداف پر پاکستانی میزائل اور ڈورنز حملوں کے بعد ایران نے اپنے فضائی دفاعی نظام میں نئے ہتھیار کی مشق کی ہے۔

ایران نے کہا ہے کہ اس دفاعی مشق کا مقصد خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر جنوب مغرب سے جنوب مشرق کے ساحل تک پھیلے ہوئے علاقے میں دشمن کے حملے روکنا تھا جس میں اس مقصد کے لیے تیار کردہ خصوصی ڈرونز استعمال کیے گئے۔

جمعرات کو شروع ہونے والی دو روزہ مشقیں جنوب مغربی صوبہ خوزستان کے آبادان سے لے کر جنوب مشرقی صوبے سیستان اور بلوچستان کے چاہ بہار تک کے علاقے کا احاطہ کرتی ہیں جن کی سرحدیں پاکستان اور افغانستان سے ملتی ہے۔

پریس ٹی وی نے کہا کہ مشقوں میں فوج کی فضائیہ اور بحریہ، ایرو اسپیس فورس اور اسلامی انقلابی گارڈز کور کی بحریہ نے حصہ لیا۔

ایران نے منگل کو، بقول اس کے پاکستانی سرحد کے اندر ایک سنی عسکری گروپ جیش العدل کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا جس کے دو روز بعد جمعرات کو پاکستان نے بھی ایران کے اندر بقول اس کے علیحدگی پسند عسکری گروپ پر فضائی حملہ کیا۔

“ادلے کا بدلہ” کی بنیاد پر کیے یہ حملے حالیہ برسوں میں سرحد پار مداخلت کی سب سے بڑی کارروائی تھی جس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ کے پھیلتے ہوئے دائرے میں مزید اضافے کے خدشات کو جنم دیا ہے ۔

ایک طرف جہاں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ جاری ہے تو دوسری جانب لبنان کے عسکری گروپ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان بھی جھڑپیں ہو رہی ہیں اور یمن کے حوثی باغی جنہیں ایران کی سرپرستی حاصل ہے، بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر حملے کر رہے ہیں۔ جسے روکنے کے لیے امریکہ اور برطانیہ نے یمن میں حوثیوں کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔

ایران اگرچہ براہ راست اسرائیل کے خلاف جنگ میں شامل نہیں ہے لیکن اس کی پراکسیز اور اس کی مدد سے چلنے والے عسکری گروپس نے شام اور عراق میں ایسے اہداف پر حملے کیے ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے جاسوسی کے مراکز اور داعش کے ٹھکانے تھے۔

جمعے کو ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے پریس ٹی وی نے فضائی دفاعی مشقوں کے بارے میں ایرانی فوج کے ایک ترجمان کے حوالے سے کہا ہے کہ ایرانی فورسز نے فضائی دفاع کے لیے کامیابی کے ساتھ ایک نیا طریقہ شروع کیا ہے جو دشمن کے حملے کا راستہ روکنے کے لیے ڈرون کا استعمال کرتا ہے۔

تعلقات معمول پر لانے کا عندیہ

پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کی ایک ناہموار تاریخ ہے لیکن دونوں نے ہی ایک دوسرے پر حملوں کے بعد کشیدگی میں کمی لانے کا عندیہ دیا ہے۔

پاکستان کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران کا مفاد اس میں ہے کہ وہ باہمی تعلقات کو 16 جنوری سے پہلے کی سطح پر لے جانے کے لیے اقدامات کریں۔

جمعے کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 16 جنوری کو پاکستان پر ایرانی حملے اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر وزارت خارجہ کی جانب سے بریفنگ دی گئی۔ وفاقی کابینہ نے پاکستانی فورسز کی طرف سے ملکی سیکیورٹی کی خلاف ورزی پر پیشہ ورانہ انداز میں جوابی کارروائی کرنے کی تعریف کی۔

وفاقی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان قانون کی پاسداری کرنے والا اور امن پسند ملک ہے اور وہ تمام ممالک بالخصوص اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات کا خواہاں ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان کو اسلام آباد کے دورے کی دعوت دی ہے جس پر ایرانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ دونوں وزارئے خارجہ کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو انتہائی مثبت رہی اور اعلیٰ سطح پر تعلقات کی بحالی پر بات کی گئی۔

(یہ رپورٹ وی او اے سے لی گئی ہے جس کو بغیر کسی تبدیلی کے ٹی بی پی قارئین تک پہنچایا جارہا ہے )