پاکستانی کارروائی کا ہدف کون تھا؟

1435

پاکستان کی جانب سے جمعرات کی صبح ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان (مغربی بلوچستان) میں آبادیوں کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں اب تک نو افراد کے مارے جانے کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ بعض ذرائع کے مطابق بارہ کے قریب افراد جانبحق ہوئے ہیں جن اکثریت خواتین و بچوں کی ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے بیان میں دعوی کیا گیا کہ ’جمعرات (18 جنوری) کی صبح پاکستان نے ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے مخصوس ٹھکانوں کے خلاف انتہائی مربوط فوجی حملوں کا آغاز کیا۔ انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر مبنی اس آپریشن کے دوران متعدد دہشتگرد مارے گئے ہیں۔‘

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ان حملوں میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ’دہشتگردوں‘ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

پاکستان کے صوبے بلوچستان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں متعدد بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں گذشتہ کئی دہائیوں سے متحرک ہیں اور ان تنظیموں نے ماضی میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز، پولیس اور اہم تنصیبات پر کئی مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

ان تنظیموں میں دو بڑے نام بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ہیں۔ بی ایل ایف کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ جبکہ بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب ہیں۔

پاکستانی حکام کی جانب سے گذشتہ کئی برسوں سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا تھا کہ ان علیحدگی پسند تنظیموں سے جُڑے عسکریت پسند ایران میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

یاد رہے کہ ایران میں پاکستانی کارروائی کے بعد بی ایل ایف کے ترجمان کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ایران میں کوئی ٹھکانے موجود نہیں اور نہ ہی پاکستان کے حالیہ حملوں میں بلوچستان لبریشن فرنٹ کو کوئی سرمچار شہید ہوا ہے۔‘

آپریشن ’مرگ بر سرمچار‘ کیا ہے؟

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ، آئی ایس پی آر، کا کہنا ہے کہ پاکستان نے 18 جنوری کو علی الصبح ایران کے اندر کارروائی کرتے ہوئے بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور اس حملے کا ہدف وہ عناصر تھے جو پاکستان کے اندر دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث تھے۔

شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق اس کارروائی کو ’آپریشن مرگ بر سرمچار‘ کا کوڈ نام دیا گیا ہے اور انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر کی گئی ہے۔

’مرگ بر سرمچار‘ فارسی کا جملہ ہے جس کا لفظی مطلب ’سرمچاروں کی موت‘ ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سے منسلک افراد اپنے لیے ’سرمچار‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب براہوئی زبان میں ’بہادر‘ اور ’گوریلا‘ کے بھی ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق اس کارروائی میں خودکش ڈرون، راکٹ، میزائل اور گولہ بارود استعمال کیے گئے جبکہ دعویٰ کیا گیا کہ ’کولیٹرل ڈیمج‘ سے بچنے کے انتہائی احتیاط برتی گئی۔

ارنا نیوز کے مطابق سراوان کا علاقہ ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے صدر مقام زاہدان سے 347 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے جس کی سرحد پاکستان سے ملتی ہے۔

سراوان ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان کا صدر مقام ہے جو کہ ایرانی دارالحکومت تہران سے تقریباً 18 سو کلومیٹر دور پاکستان اور ایران کے تفتان بارڈر سے 283 کلومیٹر دور واقع ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ کیا ہے؟

بی بی سی رپورٹ کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی نامی علیحدگی پسند تنظیم 1970 کی دہائی کے اوائل میں اس وقت وجود میں آئی تھی جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں بلوچستان میں ریاست پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت کی ابتدا ہوئی تھی۔

تاہم فوجی آمر ضیاالحق کی جانب سے اقتدار پر قبضے اور بلوچ قوم پرست رہنماﺅں سے مذاکرات کے نتیجے میں مسلح بغاوت کے وقتی خاتمے کے بعد بلوچ لبریشن آرمی بھی پس منظر میں چلی گئی۔

تاہم سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں بلوچستان ہائیکورٹ کے جج جسٹس نواز مری کے قتل کے الزام میں قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کی گرفتاری کے بعد سنہ 2000 سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری تنصیات اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان حملوں میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ ان کا دائرہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھی پھیل گیا۔

ان حملوں میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری بی ایل اے کی جانب سے قبول کی جاتی رہی جس کے بعد سنہ 2006 میں حکومتِ پاکستان نے بی ایل اے کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کرلیا اور حکام کی جانب سے نواب خیر بخش مری کے بیٹے نوابزادہ بالاچ مری کو بی ایل اے کا سربراہ قرار دیا گیا۔

نومبر 2007 میں بالاچ مری کے مارے جانے کی خبر آئی اور بی ایل اے کی جانب سے کہا گیا کہ وہ افغانستان کی سرحد کے قریب سکیورٹی فورسز سے ایک جھڑپ میں مارے گئے۔

بالاچ مری کے جانبحق ہونے کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے برطانیہ میں مقیم ان کے بھائی نوابزادہ حیربیار مری کو بی ایل اے کا سربراہ قرار دیا جانے لگا تاہم نوابزادہ حیربیار کی جانب سے کسی مسلح گروہ کی سربراہی کے دعووں کو سختی کے ساتھ مسترد کیا جاتا رہا۔

نوابزادہ بالاچ مری کے مارے جانے کے بعد بی ایل اے کی قیادت میں جو نام ابھر کر سامنے آیا وہ اسلم بلوچ تھا۔ ان کا شمار تنظیم کے مرکزی کمانڈروں میں کیا جانے لگا۔

اسلم بلوچ کے دور میں ہی بی ایل اے میں ان کے زیر اثر گروپ کی جانب سے خود کش حملے بھی شروع کر دیے گئے جن کو تنظیم کی جانب سے ’فدائی حملے‘ قرار دیا جاتا رہا۔ یہ تنظیم چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی بھی مخالفت کرتی رہی ہے اور اس نے اپنی حالیہ کارروائیوں میں پاکستان میں چینی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔

بی ایل اے کی جانب سے اگست 2018 میں سب سے پہلے جس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی وہ خود اسلم بلوچ کے بیٹے نے ضلع چاغی کے ہیڈکوارٹر دالبندین کے قریب کیا تھا۔ اس حملے میں سیندک منصوبے پر کام کرنے والے افراد کی جس بس کو نشانہ بنایا گیا تھا اس پر چینی انجینیئر بھی سوار تھے۔

اس کے بعد کالعدم بی ایل اے نے نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ حملہ تین خود کش حملہ آوروں نے کیا تھا۔

اس حملے کے بعد ہی ایک مبینہ خودکش حملے میں اسلم اچھو کی کے مارے جانے کی خبر آئی اور اطلاعات کے مطابق اب بی ایل اے کی قیادت بشیر زیب نے سنبھالی ہے۔

بی ایل ایف سنہ 2004 سے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی سربراہی میں بلوچستان کے مکران بیلٹ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں متحرک ہے۔ اس گروہ نے حالیہ دور میں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

اس تنظیم نے جنوری 2022 میں بلوچستان کے شہر گوادر میں پاکستانی فوج کی ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا جس میں 10 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔