پارلیمانی سیاست اور اُسکے کالے کرتوت ۔ بہادر بلوچ

218

پارلیمانی سیاست اور اُسکے کالے کرتوت

تحریر: بہادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ 

جرمن سیاسی ریلسٹ اور فلسفی کارل اشیمت اپنی کتاب ’دی کانسیپٹ آف دی پولیٹیکل ‘ میں سیاسی کے تصور پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’ سیاسی ‘کی آخری حد یا اس کا مرکز دو ریاستوں یا قوموں میں دوست اور دشمن کی بنیاد پر تقسیم ہونا ہے۔ مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ دشمن کیا ہے؟ دشمن کون ہے؟ یہ فیصلہ اور اس بات کا تعین کون کرے گا کہ کوئی دشمن ہے ؟

پاکستانی پارلیمانی سیاست جو جھوٹ کا ایک ڈھونگ ہے جہاں اس پارلیمانی سیاست میں ایسے لوگوں کو بھیجا جاتا ہے جو صرف پنجابی کلاس کو نہ صرف فائدہ دیتے ہے بلکہ پنجابی ایلیٹ کلاس اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو تحفظ بھی دیا جاتا ہے۔ مزید بلوچستان کی اجتماعی و بنیادی مسائل کو لوگوں سے چُھپا کر بلوچوں کو سڑک، نوکری اور ترقیاتی فنڈز کا جھانسہ دیکر وسائل کا بھرپور سودا کرتے ہے جو آج تک شدت سے جاری ہے۔

بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں ریاستی یلغار زور و شور سے جاری ہے اور پورے بلوچستان کو پاکستان نے ایک کالونی کے طور پر رکھا ہے۔” افریقن دانشور البرٹ میمی اپنی کتاب “The Colonizer and the Colonized” میں کہتا ہے” کہ کالونائزر نا صرف ایک محکوم ریاست پر قبضہ کرتا ہے بلکہ وہ قبضہ گیر ریاست اپنے ساتھ سب کچھ لاتا ہے جو اُس محکوم خطے پر کالونائزر کی تمام پالیسوں کو جواز بخشا جائے جو آج بلوچستان میں ہر صورت بے بس بلوچ ریاستی جبر اور تشدد کو برداشت کرتا آرہا ہے جہاں پورا بلوچ خطہ ریاستی لپیٹ میں ہے اور طرح طرح کے ظلم اور جبر شدت کے ساتھ بلوچوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے جو پہلے بنگالیوں کے خلاف کیا جاتا تھا۔

بلوچ پارلیمانی سیاست جو ہر صورت میں اُس ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے ڈھانچے کا حصہ ہے جہاں ہر پانچ سال بعد اسٹیبلشمنٹ اپنے من پسند لوگوں کو محکوم بلوچوں پر مسلط کرتا آرہا ہے تاکہ لوکل پارلیمانی گُماشتے اور ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے بلوچستان کی بنیادی مسئلے کو دنیا کے سامنے چُھپایا جائے کہ بلوچستان میں کیا ہورا ہے اور ریاستی بربریت اور جبر جو بلوچوں کے خلاف کئی عشروں سے چلتا آرہا ہے کو انہی پارلیمانی سیاستدانوں سے جسٹیفاہی کیا جائے کہ پاکستان کے اندر جمہوریت کی بالادستی ہے، عوام خود مختار ہے اور سلیکٹڈ و جعلی ممبرز عوام کے ووٹوں سے آتے ہے جو حقیقت کے بلکل برعکس ہے اور اسی طرح سوکالڈ اور ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں کو پارلیمنٹ بیھجتے ہے تاکہ ریاستی جبر اور بیانیے کو پارلیمنٹ و اسمبلی میں ریاستی کرتوتوں و جراہم اور بلوچوں کی نسل کشی کو چُھپایا جاسکے جو اسٹیبلشمنٹ اپنے ٹاہوٹ اور لوکل سیاستدانوں کے زریعے بلوچ نسل کشی کے خلاف پارلیمانی ممبروں کے کٙندے پر گٙن رکھ کر تیر چلاتا آرہا ہے۔

پاکستانی ریاست بیرونی ممالک چین اور کینیڈا کے ساتھ مختلف پروجکٹس میں نہ صرف بلوچستان کے اندر وسائل کی لوٹ ماری میں پیش پیش ہے بلکہ پارلیمانی سیاستدانوں کے زریعے سی پیک جیسے سامراجی پروجکٹس، سیندک و ریکوڈک جیسے معدنیات کو پارلیمانی سیاستدانوں کے دستخط اور فریم ورک سے پاس کیا جاتا ہے اور کبھی مقامی سیاستدانوں کو جو اپنے دور حکومت میں ہوتے تھے جہاں چین جیسے سامراجی طاقت کے ساتھ بلوچستان کے وسائل کا سودا کیا جاتا ہے تو کبھی اور سامراجی ممالک سے ڈیل کیا جاتا ہے جس طرح ڈاکٹر مالک چین میں نوازشریف کے دور حکومت میں گیا تھا اسکے علاوہ مشور زمانہ ڈیتھ اسکواڈ سابقہ وزیر اعلی بلوچستان قدوس بزنجو جیسے لوگوں سے بلوچستان کی معدنیات کو نیلام کیا جاتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے یہ سارے ریاستی پارٹیاں اور اسکے چمچے ایک ہی کشتی کے عملے ہے۔

دوسری طرف بلوچوں کے خلاف پاکستانی جبر اور تشدد کی پامالی کے علاوہ ریاست اپنے حواریوں کے زریعے الیکشن اور سیاست کے نام پر بلوچ کو بلوچ سے ہی لڑایا جارہا ہے اور ایسا بلوچ گھر آپ کو نہیں ملتا جہاں لوکل پارلیمانی سیاست کی وجہ سے بھاہی اپنے بھاہی کا خون کا پیاسہ نہ ہو یا یہ آپسی لڑاہی اور دشمنی ریاستی پالیسی کا حصہ ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی پارلیمانی سیاست کا مقصد بلوچ کی بقا اور شناخت کو ہر حال میں ختم کرنا ہوتا ہے کہ بلوچ کا وجود بلوچستان کے اندر ہی ختم ہوجاہے اِسی طرح جرمن دانشور کارل اشیمت کے مطابق دشمن اس وقت وجود رکھتا ہے جب ’لڑنے والے لوگوں کا ایک اجتماع ایسے ہی دوسرے اجتماع کے آمنے سامنے ہو اور ایسے لڑنے والے اجتماع کا رشتہ ایک قوم سے اور اس کے تمام چیزوں سے ہو ، اسی رشتے کے سبب لڑنے والا ایک اجتماع دوسرے اجتماع کا قومی دشمن بن جاتا ہے۔ دشمن ہمیشہ اجنبی اور الگ ہوتا ہے جو کہ دوسرے اجتماع کی طرز زندگی کو مکمل ختم کرنا چاہتا ہے۔ کارل اشیمت کے مطابق جرمن سمیت دنیا کی بہت سے دوسرے زبانوں میں سیاسی اور ذاتی دشمن کا فرق موجود نہیں ہے۔

یہ حیرانگی کی بات ہے آج کے سوشل میڈیا دور میں ہر وقت سوشل میڈیا میں ہمارے کچھ بلوچ نوجوان جو اعلی یونیورسیٹیوں سے فارغ شدہ ہوکر اِسی پارلیمانی پیٹ پرستوں کو بطور مسیحا پیش کرتے آرہے ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے یہ بلوچ نوجوان بھی پیٹ پرستی اور ذاتی مراعات کی خاطر اس کشمکش اور دوڑ میں اپنے پارلیمانی لیڈروں کے لیے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور بلوچ اجتماعی و قومی مسلے کو سپوتاز کرنے کے لیے یہی نوجوان بھی ریاستی مشینری کا حصہ بن کر کل کو بلوچ کاز کے لیے ایک سوفٹ پاور کا کردار ادا کرتے ہے جس میں نوکری، ٹھیکہ اور ترقی جیسے ریاستی لالچ کا حصہ بنتے ہے اور اس نام نہاد سوچ کو صرف ریاستی دلالوں کے زریعے پروان چھڑایا جاہے گا تاکہ بلوچ کاز سے بلوچوں کو ڈائیورٹ کیاجائے اور بلوچوں کو مختلف سماجی کاموں میں دھکیل دینے کے بعد خوب اپنی جیبیں بھرنا چاہتے ہے جو ان پارلیمانی سیاستدانوں اور انکے چمچوں کا وطیرہ بنتا آرہا ہے۔

مزید، پارلیمانی سیاستدانوں سے لیکر ریاستی گماشتہ لوکل پارٹیوں تک جو الیکش 2024 کے لیے اُسی پارلیمنٹ جانے کے لیے تگ و دوڈ میں شامل ہے جہاں اپنے ادوار میں اسی پارلیمنٹ میں رہ کر بلوچ نسل کشی سے لیکر بلوچوں کو ماوراہے عدالت قتل و لاپتہ کرنا یا توتک جیسے جیسے مسخ شدہ سینکڑوں لاشوں کا ملنا ایک انسانی المیہ سے کم نہیں ہے اور تو اور بلوچستان کے اندر خونی آپریشن میں براہ راست ملوث ہوتے آرہے ہے لیکن اس دفعہ پھر یہ ریاستی دلال دوبارہ اسی پارلیمنٹ میں جاکر صادق اور جعفر جیسے دلال بن کر دوبارہ بلوچوں کو مٹانے کے لیے ریاستی مشینری کا دوبارہ حصہ بننے کے خواہش مند ہے تاکہ بلوچستان کے اندر اسی طرح کلونیل نو آباد کاری کو پروٹکٹ کیا جاہے اور مظلوم بلوچوں کا خون چوس لیا جاہے جو پارلیمانی پارٹیاں کئی دہائیوں سے کرتے آرہے ہے۔

اگر ہم موجودہ بلوچ قومی تحریک کو دوہزار کی دہائی پر روشنی ڈالیں تو بلوچ نوجوانوں نے دوسرے مظلوموں کی طرح ہر اول دستے کا کرداد ادا کیا لیکن سامراج نے ہر وقت نوجوانوں کو ختم کرنے کے لئے مختلف طریقے آزمائے لیکن دشمن کی ہر چال اور خواب کو نوجوان طبقے نے خاک میں ملا دیا، پھر دشمن نے تشدد کی راہ اختیار کی، بلوچ سیاسی ورکروں کو اغواء کر کے پھر لاشیں پھینکنے کا سلسلہ شروع کیا، لیکن نوجونوں کے پیروں میں لرزش آنے کے بجائے، وہ مزید اپنے مقصد سے مخلص ہو گئے اور اپنے جدوجہد کو ایک نئے رنگ اور نئے جذبے سے بڑھانے لگے۔

بلوچستان میں نوجوانوں کا بنیادی ایک کردار ہوتا چلا آرہا ہے شہید نواب اکبر خان بگٹی کے بعد بلوچ نوجوانوں کا بلوچ اجتماعی سیاست میں بھی اہم کردار رہا ہے جہاں بی ایس او آزاد اور باقی سیاسی تنظیمیں اجتماعی کاز کے لیے گھر گھر،گلی گلی بلوچ ایشو کو سامنے رکھ کر اور پارلیمانی سیاست جیسے ڈھونگ سے بلوچوں کو دور رکھتے تھے تاکہ پارلیمانی سیاست سے اجتماعی کاز کو بچا سکے جس میں شہید غلام محمد اپنے ساتھیوں سمیت نا صرف شہید کیے گئے بلکہ پارلیمانی پارٹیاں جیسے نیشنل پارٹی,باپ پارٹی اسکے علاوہ بی این پی مینگل اور باقی لوکل پارٹیوں کو بلوچ نسل کشی کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتا آرہا ہے اسی اثناء یہ ریاستی پارلیمانی پارٹیاں بلوچ نوجوانوں کو قومی ایشو سے دور رکھنے کے مختلف چھوٹی موٹی تنظیمیں بی ایس او محی الدین اور بی ایس او پجار اور تنظیمیں بنا کر نوجوانوں کو پارلیمانی سیاست میں ایڈجسٹ کرایا جاتا ہے تاکہ اپنے زاتی مفادات کو تحفظ فراہم کیا جاہے جو اور بلوچ نوجوانوں کے ذہنوں کو کنفیوز کیا جاہے کہ اسکے مسائل پارلیمانی سیاست سے ہی حل کیے جاتے ہے جو نا صرف ریاستی سوفٹ پاور کا حصہ ہے بلکہ بلوچ ذہنوں کو مفلوج کرنے کے لیے انکی بھاری قیمت ریاستی دلالوں اور مقامی پارٹیوں کو دیا جاتا ہے۔

بلوچوں کا مقصد صرف اور صرف ایک ہی ہونا چاہیے اور وہ یہ کہ اگر ہم اپنے آنے والی نسلوں کو شعور یافتہ یا سیاسی طورپر پختہ بنانا چاہتے ہیں بجاہے ہمارے بلوچ نوجوانوں کو ریاستی گماشتہ پارٹیوں کا حصہ بنا کر ہمارے سماج کو کھوکھلہ کرے بلوچ کاز ہمارے بلوچ نوجوانوں کا علمی مطالعہ اور شعور ہونا چاہیے جو ہمارے کل کا ضامن ہو اور وہی راستہ چُننا چاہیے جو ریاستی نوآبادکار کے خلاف ردعمل ہو جس نے بلوچستان کو 1947 سے مقبوضہ بنایا ہے۔یئ لوکل ریاست کے لاہے ہوے جعلی سیاستدانوں کو ریاست سامنے لانا چاہتا ہے اسی طرح ہر وقت پارٹیاں اور چہرے بدلے جاتے ہے تاکہ بلوچستان میں لوٹ مال کا سلسلہ جاری و ساری ہو- میری اپنی قوم کے لوگوں سے اپیل ہے بجاہے ان ریاستی دلالوں کے پیچے بھاگنے اور چمچہ گیری کرنے کے لیے جو ہماری اجتماعی و قومی درد کا زمہ دار ہے ان سے دور ہونا چاہیے جو ریاست کے بغل میں بیٹھ کر نوچ نوچ کر بلوچ کو کھارہے ہے، لوٹ رہے ہے اور ہماری شناخت کو بیچنے کے لیے ایک پرزے کے طور پر مشینری کا حصہ ہے۔ بلوچ قوم کو ایسے پلیٹ فارم کا حصہ بننا چاہیے جہاں ہر ایک لیڈر کبھی ورکر ہوتا ہے اور جو بھی لیڈر بنتا ہو محنت مشقت اور شب روز کاوشوں کے ذریعے ہی بنتا ہے اور اسکا کام صرف بلوچ کاز ہی ہوں جو وہ اُس مقام اور عزت کو حاصل کرتا ہے جو کہ ویرانوں میں قید ذاکر مجید، زاھد بلوچ ، شبیر بلوچ ، یا شہادت کے عظیم مقام پر فائز ہوتا ہے جہاں شہید فدا احمد بلوچ ، شہید اسلم بلوچ ، شہید حمید بلوچ، شہید رضا جہانگیر، شہید وحید بلوچ، شہید امیر الملک، شہید قمبر چاکر، شہید الیاس نظر، شہید کامریڈ قیوم شہید سہراب مری سمیت ہزاروں شہداہ نوجوانوں اور پوری بلوچ قوم کیلیے مشعل راہ ثابت ہوں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔