ووٹ بٹورنے والے ہمارے در پر نہ آئیں – گوادر سمیت 9 علاقوں میں بلوچ نسل کشی کے خلاف احتجاج

278

بلوچ نسل کشی کے خلاف اور اسلام آباد بلوچ مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے طور پر بلوچستان میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

منگل کے روز بلوچستان کے ساحلی شہرگوادر، پسنی، اورماڑہ، جیونی، گڈانی، دشت، منگچر، مند، تمپ میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین اور مرد سڑکوں پر نکل آئیں۔

ان مظاہروں میں جبری لاپتہ بلوچ افراد کے لواحقین بھی شریک رہیں۔ شرکاء نے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کی تصویریں، پلے کارڈز اور بینرز اٹھا کر بلوچ نسل کشی کے خلاف نعرے بازی کی۔

شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے نہتے بلوچوں پر ظلم و جبر ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکنے اور ان کی اغواء نما گرفتاریاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ کسی بھی ریاست میں سزا و جزا عدلیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر افسوس کہ اس ریاست میں عدلیہ سے بھی بڑھ کر ادارے موجود ہیں جو اپنی رٹ بنائے ہوئے ہیں اور ملکی قوانین کو روندا جارہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت اغوا، مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی ایک طویل داستان ہے، اپنے وسائل پر حق مانگنے اور آواز بلند کرنے پر غداری اور تخریب کاری کے القابات سے نوازا جاتا ہے، ریاستی ادارے خود ملکی قوانین کو روند کر نہتے عوام پر ظلم و جبر قائم کرکے ان کے ماورائے عدالت اغوا، اور قتل نیز ان کی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنے جیسے عمل پر خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاستی ادارے ملکی قوانین اور عدلیہ کا احترام نہ کرکے نہتے بلوچوں کے قتل عام میں براہِ راست ملوث ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وسائل کو صدیوں سے لوٹا جارہا ہے جب بلوچستان کے عوام اپنے حق کی بات کرتے ہیں، تو ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ انہی ظلم و زیادتیوں سے تنگ آکر آج پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شانہ بشانہ ہیں۔ ریاستی ادارے آئیں دیکھیں آج کی اس عظیم الشان تاریخی ریلی میں ہزاروں بلوچ خواتین کی شرکت نوشتہ دیوار ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں ریاست کو ماں کا درجہ حاصل ہے لیکن شاید اس ریاست میں بلوچستان اور اس کے باسیوں کو سوتیلا بچہ سمجھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک ریاست اپنی تمام اکائیوں کو ایک نظر سے نہیں دیکھتی یہ ملک کھبی ترقی نہیں کرسکے گی۔ انہوں نے کہا کہ ظلم و جبر کیخلاف آج پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں آج انہی زیادتیوں کیخلاف اسلام آباد میں پرامن احتجاج کررہی ہے مگر اسلام آباد پولیس کی نہتے بلوچ خواتین اور بچوں کی احتجاج راس نہ آئی اور انھوں نے پولیس گردی کا مظاہرہ کرکے اس ٹھٹھرتی سردی میں شرکاءپر وحشیانہ تشدد کیا اور انھیں گرفتار کر کے پابند سلاسل کیا جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان کا ہر فرد ماہرنگ بلوچ اور سمی دین کی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جدو جہد میں ان کے ساتھ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ووٹ بٹورنے والے سن لیں وہ ووٹ کے لیے ہمارے در پر نہ آئیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم کیسے ووٹ دیں ایک طرف ہمارے لخت جگر پیاروں کو ماورائے عدالت اغوا کیا جارہا ہے اور دوسری طرف ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکی جارہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں ان زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔

مظاہرین نے کہاکہ ریاستی جبر کے خلاف بلوچ عوام نے اپنا فیصلہ دیا ہے، ریاست یہ بات ذہن نشین کرے کہ بلوچ خاموشی سے ظلم قبول نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہاکہ ریاست نے مختلف حربوں، طاقت، ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے بلوچ آواز کو دبانے کی کوشش کی لیکن آج پورا بلوچستان یک زبان ہوکر ریاستی جبر کے خلاف سراپا احتجاج ہے ۔