نام نہاد انتخابات کو قومی غلامی کو طول دینے کے مترادف سمجھتے ہیں ۔ ایس آر اے

234

سندھی آزادی پسند مسلح تنظیم سندھودیش روولیوشنری آرمی (ایس آر اے) نے پاکستانی الیکشن کے حوالے سے پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی ریاست پہلے دن سے ہی قوموں کی آزادی کے فطری، تاریخی اور جمہوری حق کی منکر رہی ہے۔ اس لیئے سندھ میں ہونے والے نام نہاد انتخابات کو ڈھونگ اور سندھ کی قومی غلامی کو مزید طول دینے کے مترادف سمجھتے ہوئے مکمل طور پر رد کرتے ہیں اور بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ سندھی قوم ، سائیں جی ایم سید کے فکر سے وابسطہ جماعتوں، قومی کارکنان، ادیبوں اور دانشوروں سے بھی بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انگریزوں کے یہاں آنے کے بعد جس طرح خودمختار ریاستوں پر قبضہ کیا گیا تھا، اسی طرح انہی ریاستوں کو آزاد کیا جاتا مگر انگریزوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے مشترکہ ہندوستان کو توڑ کر پاکستان کی ریاست بنائی جو جبر اور مکاری پر مشتمل تھی۔ انگریزوں کو اس خطے میں اپنے مفادات کی نگرانی کے لیئے ایک چوکیدار کی ضرورت تھی اور پنجابی فوج سے بڑھ کر ان کے لیئے کوئی اور چوکیدار نہ تھا ۔ پنجابی ، انگریز فوج کے سب سے بڑے وفادار سپاہی تھے۔ یہ وہی سپاہی تھے جنہوں نے 1857ء کی بغاوت میں اپنے لوگوں پر گولی چلاکر انگریزوں کی سلطنت کو بچایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس لئے پاکستان بننے سے لیکر برطانیہ اور امریکہ پاکستان کے انہی پنجابی فوجیوں کو پالتے آئے ہیں۔ اور آج بھی یہ پنجابی فوج انگریزوں کے سامنے کشکول لیکر کھڑے ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم شہباز شریف نے پوری بے حیائی سے کہا تھا کہ
” Beggers are not choosers.” مطلب “دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے والے اپنی مرضی نہیں چلاتے”۔ جس طرح انگریزوں کا مشترکہ ہندوستان پر قبضہ ناجائز اور غیر فطری تھا ، اسی طرح پاکستان کا وجود اور قبضہ بھی ناجائز اور غیر فطری ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ غیر فطری ملک صرف مکاری ، بے ایمانی اور فریب پر ہی چلتے ہیں۔ اس لئے پاکستان پہلے دن سے ہی فریب ، مکاری اور دھوکے پر چل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بننے کے وقت 1940ء کی قرارداد میں یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان میں شامل قوموں کو خودمختار ریاستوں کا درجہ حاصل ہوگا۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد قوموں کے وجود کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی گئی۔ پورٹ سٹی کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنا کر اس کے اختیارات اور وسائل سلب کئیے گئے۔ ون یونٹ بنا کر نا صرف قوموں کے وجود کا انکار کیا گیا بلکہ مظلوم قوموں کے وسائل کو بڑی بے رحمی سے لوٹا گیا ۔ جب ون یونٹ سے بھی کام نا چل سکا تو ملک کے اندر نام نہاد جمہوریت کو ختم کرکے اقتدار فوج کے حوالے کیا گیا ۔ دوسرے الفاظ میں انگریزوں کے اصل لاڈلوں کو پاکستان کا مالک اور کرتا دھرتا بنایا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ فوجی راج قائم رکھنے کے لیئے ایک دوسرے کے پیچھے مسلسل دو مارشل لاء لگائی گئی ۔ انہی دو مارشل لائوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا اور بنگلادیش الگ ملک بن گیا۔ پاکستان ٹوٹنے کے بعد اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر یحیٰ خان کو بے عزت کرکے گھر بھیجا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کا صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ تقویض کیا گیا۔
یہ تاریخ کا سب سے بڑا تماشہ تھا کہ خود کو جمہوریت کا چیمپیئن اور عوام کا نمائندہ کہلانے والا ذوالفقار علی بھٹو نے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ قبول کیا اور دو سال تک پاکستان میں مارشلا قائم رکھی۔ یہ مارشلا پاکستان اور دنیا کی تاریخ کا انوکھا مارشل لاء تھا جس کا ایڈمنسٹریٹر ایک سویلین تھا۔ 1970ء والی انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی پيپلز پارٹی کے علاوہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ سے نیشل عوامی پارٹی(نعپ) جیت گئی تھی۔ نیپ میں سردار عطاءاللہ مینگل اور نواب خیربخش مری کے ساتھ تمام قومپرست اور ترقی پسند بلوچ شامل تھے۔ جبکہ خیبر پختون خواہ میں خان غفار خان اور ولی خان کی قیادت میں نیپ الیکشن جیتی تھی۔ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے دو سال تک مارشل لاء قائم رکھی اور اسمبلیاں بحال کرنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آیا تو نیپ نے ان پر دباؤ ڈالا کہ مارشل لاء ختم کرکے اسمبلیوں کا اجلاس بلایا جائے اور اقتدار عوامی نمائندوں کے حوالے کیا جائے۔ نیپ کے دباؤ پر بھٹو نے صوبوں میں عارضی حکومتیں قائم کیں ۔ بلوچستان میں سردار عطاء اللہ مینگل وزیراعلیٰ بنا اور خیبر پختون خواہ میں نیپ کی حمایت سے مفتی محمود نے حکومت قائم کی ۔ یہ حکومتیں قائم ہوئے ابھی ایک سال ہی ہوا تھا کہ جمہوریت کے چیمپیئن بھٹو نے دونوں منتخب حکومتوں کو تحلیل کرکے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں گورنر راج نافذ کردیا ۔

انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں عطاء اللہ مینگل کی حکومت ختم کرنے کے بعد سردار عطاء اللہ مینگل ، نواب خیر بخش مری اور دوسرے بلوچ لیڈروں پر غداری کا مقدمہ قائم کر کے بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا ۔اس فوجی آپریشن میں جنگی جہازوں کے ذریعے بلوچوں کے شہروں اور دیہاتوں پر بمبارمنٹ کر کے بلوچستان کے ننگ و ناموس اور سرحدوں کی بے حرمتی کی گئی۔ وہ سب کچھ کیا گیا جو چنگیزی فوجوں نے دنیا کے مظلوم انسانوں سے کیا تھا ۔ اور یہ سب کچھ کسی فوجی حکومت میں نہیں بلکہ ایک نام نہاد جمہوری حکومت میں کیا گیا ۔ اس ریاست میں جمہوریت صرف ایک ڈھونگ رہی ہے۔ یہ ریاست مظلوم قوموں کے لیئے قید خانہ اور مقتل گاہ بنی ہوئی ہے۔ جہاں پہلے اس ریاست کی فوج ننگ و ناموس کی بے حرمتی کر کے گھروں میں گھس کر چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرتی ہے۔ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں چوراہوں پر پھینکتی ہے۔ ہمارے شہروں اور دیہاتوں کو فوجی بوٹوں تلے کچلتی ہے۔ ہماری جغرافیہ ، سمندر ، دریا ، لاکھوں ایکڑ زمینیں ، کارونجھر ، تیل ،گيس، کوئلہ ، گرینائیٹ اور دوسرے وسائل اور ذرائع پر قبضہ کرتی ہے۔ ہماری ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کے لیئے بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے جیسے بڑے پروجیکٹ بناکر اور پنجابیوں اور دوسرے غیر مقامیوں کی یلغار کو لاکر سندھیوں کو اقلیت میں تبدیل کرتی ہے اور پھر انتخابات کا ڈھونگ رچاتی ہے۔ جیسے اپنے کئے گئے کالے کرتوتوں اور ہماری زمین پر کئے گئے ناجائز قبضے کو جائز قرار دے سکے اور اپنی کی گئی لوٹ مار کی منظوری حاصل کر سکے۔

انہوں نے کہا ہے کہ قوم کے کچھ غدار ، بے ضمیر سندھ کے جاگيردار اور وڈیرے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیئے کرسی کی لالچ میں انہی فوجیوں کے بوٹ چاٹتے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لے کر ایوانوں تک پہنچتے ہیں اور پھر اسمبلیوں میں بیٹھ کر قوم کو نیلام کرتے ہیں ۔ پاکستان میں ایک دفعہ دوبارہ نام نہاد انتخابات کا چرچہ ہے۔ اس لئے اس ڈھونگی الیکشن اور جمہوریت کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ سندھی قوم ، سائیں جی ایم سید کے فکر سے وابسطہ جماعتوں ، قومی کارکنان ، ادیبوں اور دانشوروں کو اس ڈھونگی انتخابات کا پردہ فاش کرنے اور بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔