مچھ شہر بدستور بی ایل اے کنٹرول میں، حکومتی موقف معلومات کا فقدان

1604

بلوچستان کے علاقے بولان مچھ میں گذشتہ شب بڑے پیمانے پر حملوں کا آغاز ہوا، مچھ بھاری دھماکوں اور فائرنگ سے گونج اٹھا، شہر میں انٹرنیٹ سروس معطل جبکہ بجلی بند کردی گئی۔

حملے کے چند لمحوں کے بعد بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہاکہ آپریشن درہ بولان کا آغاز ہوچکا ہے۔

رات کو مچھ سے موصول معلومات کے مطابق حملہ آوروں نے متعدد عسکری پوزیشنوں پر قبضہ کیا۔ شہر اور گرد نواح میں شدید لڑائی جاری ہے۔

اس دوراں بلوچ لبریشن آرمی نے آڈیو پیغام جاری کیا جس میں انکے جنگجو میدان جنگ کے خبر اور اپنے ساتھیوں کے متعلق معلومات دے رہے تھے۔

حکومت بلوچستان کے نگراں ترجمان جان اچکزئی گذشتہ رات سے آج صبح تک متعدد بار پاکستانی میڈیا پر آپریشن سے متعلق مختلف دعوے کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے ایک بیان میں چھ حملہ آوروں کو مارنے کا دعویٰ کیا۔ انکے مطابق اس آپریشن میں دودا بلوچ، پیردان بلوچ اور دیگر چار افراد مارے گئے ہیں۔ حکومت بلوچستان کے وزراء اور انکے حمایتی سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے شئیر کیے گئے تصویریں دودا بلوچ، شہیک بلوچ کئی سال پہلے پاکستانی فورسز کے مقابلے میں مارے جاچکے ہیں ۔

اسی طرح رات کو جان اچکزئی نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر شئیر کی کہ آئی جی ایف سی آپریشن کو کمانڈ کررہے ہیں تاہم تصویر میں دن میں لی جاچکی ہے۔

مقامی صحافیوں کے مطابق مچھ کی صورتحال سے حکومت مکمل بے خبر غلط معلومات شئیر کررہی ہے۔

دوسری جانب بلوچ لبریشن آرمی کے پندرہ گھنٹوں میں ابتک میڈیا کو تین بیانات جاری کئے ہیں۔ جن کے مطابق شہر ابتک انکے زیر کنڑول ہے،مخلتف مقامات میں پاکستانی فورسز 55 سے زیادہ اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔

پولیس اور انتظامیہ کے مطابق مچھ سمیت کوئٹہ کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے۔ سبی سے مچھ تک شاہراہیں بند اور ٹرین سروس معطل ہوچکی ہیں۔

کوئٹہ سے پاکستانی فوج کے قافلے مچھ کی طرف روانہ ہوچکے ہیں، جنکو فضائی کمک حاصل ہے۔ اس سلسلے ابتک پاکستانی عسکری حکام کی طرف سے کوئی موقف نہیں آیا ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی کے مطابق انکے مجید برئیگیڈ یونٹ کے چار ساتھی جانبحق ہوچکے ہیں۔