مائنڈ سیٹ کا مسئلہ
تحریر: عزیز سنگھور
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں خلاف بدھ کے روز ملک بھر میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ بلوچستان کے تمام اضلاع میں کاروباری مراکز مکمل بند رہے۔ جبکہ ملک کے دیگر شہروں اور قصبوں میں جزوی ہڑتال رہی۔ کراچی کے علاقےملیر، لیاری، جنوبی پنجاب سمیت دیگر علاقوں میں بھی مارکیٹیں بند رہیں۔ یہ شٹر ڈاؤن ہڑتال رضاکانہ طورپر کی گئی تھی۔ جس کی کال بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دی تھی۔
نگران وزیر اعظم انورالحق کاکڑ نے گزشتہ روز ایک تقریب کے دوران اسلام آباد پریس کلب کے باہر جاری بلوچ لاپتہ افراد کے دھرنے میں شریک ان کے لواحقین کی وابستگی کو بلوچستان کی آزادی پسند تنظمیوں سے منسلک کیا اور اسلام آباد پولیس کی جانب سےبلوچ خواتین پر بدترین تشدد کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ چار ڈنڈے پڑنے پر واویلا کیا جارہا ہے۔ اس طرح کے ریمارکس سے بلوچ عوام کی بلوچی روایت کی تذلیل ہوئی۔
نگران وزیراعظم نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافیوں پر ان کی صحافتی سرگرمیوں پر بھی نکتہ چینی کی اور صحافیوں کو مشورہ دیا کہ وہ بلوچستان کی آزادی پسند تنظیموں کے کیمپوں کو جوائن کریں۔ وزیراعظم کے اس بیان پر صحافی برادری میں شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا۔
وزیراعظم کے اس طرح کے جملوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالی اور لاپتہ افراد جیسے اہم مسئلے پر وہ سنجیدہ نہیں ہیں اور وزیراعظم اپنے ملکی آئین و قانون کے برعکس خیالات کے مالک ہیں۔ جس سے وفاق اور بلوچ عوام میں جاری خلیج میں مزید دراڑیں پیدا ہوگئیں ہیں۔
دھرنے کے شرکا کوئی دہشتگرد نہیں ہیں بلکہ وہ نہتی خواتین اور بچیاں ہیں۔ جو ہزاروں کلو میٹر کے فاصلہ طے کرکے انصاف مانگنے اسلام آباد آئی ہیں۔ جن کے پاؤں میں چپل تک نہیں ہیں۔ وہ اپنے پیاروں کی بازیابی چاہتی ہیں۔ کسی کا والد، کسی کا بھائی اور کسی کا بیٹا کئی سالوں سے جبری گمشدگی کا شکار ہے۔ ان کا صرف یہ معصومانہ مطالبہ ہے کہ وہ یہ کہ اگر ان کے پیارے زندہ ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ بے شک اگر کسی نے جرم کیا ہے تو انہیں سزا دی جائے۔ وگرنہ انہیں بازیاب کیاجائے۔ ملکی آئین و قانون کے مطابق بلوچ بھی دیگر اقوام کی طرح مساوی حقوق کے حقدار ہیں۔
مگر وزیراعظم کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے آئین و قانون کی روگردانی کررہے ہیں۔ نگران وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ملک میں پنجابی اور بلوچ کے درمیان لسانیت پیدا کرنے کے الفاظ بھی استعمال کئے تھے۔ اس طرح کے بیانیہ سے ملک میں لسانی فسادات بھی پھوٹ سکتے ہیں۔ جس سے ملکی سلامتی کی بنیاد کمزور ہوسکتی ہے۔ ایک ذمہ دار عہدے پر فائز، نگران وزیراعظم کو کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے بیان سے ملک کو غیرمستحکم کرنے کی جانب دھکیلیں۔
نگران وزیراعظم کا مینڈیٹ صرف ملک میں انتخابات کرانا ہوتا ہے۔ نہ کہ ملک میں لسانی فسادات کرانا ۔ وزیراعظم صاحب، کاکڑ سے چوہدری کا سفر طے کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اگر نوکری پکی کرنا چاہتے ہیں تو بے شک وہ بھی کرلیں۔
پنجاب کی عوام کو یہ اچھی طرح علم ہے کہ بلوچستان کے عوام کو عام پنجابی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں پنجاب سے آئے ہوئے بڑی تعداد میں لوگ صدیوں سے آباد ہیں۔ ان کی جان و مال محفوظ ہے۔ ان کے خاندان کے خاندان ان شہروں میں آباد ہیں۔ اور وہ بلوچستان کےبرابری کے شہری ہیں۔ بلوچستان میں عام پنجابیوں سے کوئی گلہ و شکوہ نہیں ۔ وہ عام شہری کی زندگی بسر کررہے ہیں۔
وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے بیان کے بعد اسلام آباد میں بیٹھے دھرنے کے شرکاء کو اسلام آباد پولیس کی جانب سے ہراساں کرنےکا سلسلہ شروع ہوگیاہے۔ بلوچ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ضروری اشیا خوردنوش اور رضائی لیجانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ جبکہ کھانے پینے کی فراہمی تک رکاوٹ پیدا کی جارہی ہے۔
اس کشمکش کو سلجھانے کے شریک چئیرپرسن ایچ آر سی پی، منیزے جہانگیر منگل کی رات کو احتجاجی کیمپ پہنچ گئی۔ انہوں نے انتطامیہ کی جانب سے مظاہرین کو ہراساں کرنے کی مذمت کی اور انہیں لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ رات گزارنی پڑی۔
اسلام آباد میں احتجاج پر موجود بلوچ مظاہرین نے مسلسل ہراساں کیے جانے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا۔ یہ درخواست لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی اور بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز کی سیکریٹری جنرل سمی دین بلوچ نے وکیل عطاء اللہ کنڈی اور ایمان مزاری کے ذریعے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔ درخواست میں سیکرٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ایس ایچ او کوہسار کو فریق بنایا گیا۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت فریقین کو بلوچ مظاہرین کو ہراساں کرنے اور پریس کلب سے بے دخل کرنے سے روکنے کے احکامات جاری کرے۔
جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو بلوچ مظاہرین کو ہٹانے سے روک دیا ہے جو کہ خوش آئند ہے
جبکہ دوسری جانب اس کے برعکس بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری ملازمین کو نشانہ بنانے کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا۔ بلوچستان کے ضلع کیچ اور ضلع کوہلو کی ضلعی انتظامیہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ اور دھرنے میں شرکت کرنے والے افراد کے خلاف میدان میں آگئی ہے۔ اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر کوہلو نے چودہ لیویز اہلکاروں کو معطل کرکے اسسٹنٹ کمشنر کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بنا دی ہے۔ جبکہ ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جعلی مقابلے میں زیر حراست بالاچ مولابخش کے قتل کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی طرف سے ماورائے عدالت قتل کے خلاف جاری دھرنے اور لانگ مارچ کی حمایت کرنے کے الزام میں ضلع کیچ کے تیس سرکاری ملازمین کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا گیاہے۔
نگران وزیراعظم کا بیانیہ دراصل پنجاب کے عام عوام کا نہیں ہے۔ بلکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے حکمران طبقہ کا ہے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق حکمرانوں کو اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا۔ وگرنہ مضبوط فیڈریشن کا سفر ممکن نہیں ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔