لانگ مارچ، قومی بیداری اور ریاستی پروپگینڈہ ۔ منیر بلوچ

303

لانگ مارچ، قومی بیداری اور ریاستی پروپگینڈہ

تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ 

شہید بالاچ بلوچ کی شہادت کے بعد بلوچستان میں انسانی، سیاسی و شعوری تحریک کا آغاز ہوچکا ہے جس کا سہرا شہید بالاچ بلوچ کے اہلخانہ کو جاتا ہے جنہوں نے شہید کی جسد خاکی کو دفنانے سے انکار کرکے شہید فدا چوک پر دھرنا دے کر ایک نئی تحریک کی بنیاد رکھی اور اسی تحریک نے بلوچ قوم میں خوف کے اثرات کو زائل کرکے انہیں متحد ہونے کا موقع فراہم کیا اور اسی یکجہتی و اتحاد نے ریاست اور اسکے حواریوں کی نیندیں حرام کردی ہے جس کی وجہ سے ریاست اور ریاستی مشینری اس تحریک کو کاونٹر کرنے کے لئے منفی پروپگینڈوں کا حربہ استعمال کررہی ہے۔

اس مختصر مضمون میں اس تحریک کی وجوہات، ریاستی پروپگینڈہ، قومی شعور ،اثرات اور نتائج کے متعلق بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

1۔ تحریک کا آغاز:

تئیس نومبر 2023 کی صبح ریاستی قاتل اسکواڈ سی ٹی ڈی نے تربت ٹیچنگ اسپتال میں چار لاشیں پہنچائی اور دعوی کیا کہ ان افراد کو پسنی کوسٹل ہائی وے بانک چڑھائی کے قریب مقابلے میں ہلاک کیا گیا ہے اور ان ہلاک ہونے والے افراد سے اسلحہ اور دھماکہ خیر مواد بر آمد کیا گیا ہے۔ان چاروں افراد میں ایک فرد کی شناخت بالاچ ولد مولابخش سکنہ آبسر تربت کے نام سے ہوئی جسے 29 اکتوبر 2023 رات ایک بجے ریاستی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گھر والوں کے سامنے اٹھا کر جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا تھا۔ بالاچ بلوچ 21 نومبر کو عدالت میں پیش ہوا تھا جسے عدالت نے دس روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا لیکن ریاستی قاتل اسکواڈ نے آئین و قانون کو روندتے ہوئے جعلی مقابلے میں شہید کردیا ۔شہید کے لواحقین نے شہید کے جسد خاکی کو دفنانے کے بجائے شہید فدا چوک پر دھرنا دیا اور انصاف ملنے تک دھرنا دینے کا اعلان کیا۔ اور یہاں سے اس تحریک کی ابتدا ہوئی جسے آج دنیا بھر میں پذیرائی حاصل ہورہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو عالمی دنیا میں سبکی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

تحریک کا ابتدائی مرحلہ۔

جب بالاچ کے اہلخانہ نے شہید کی لاش کو شہید فدا چوک تربت منتقل کیا تو عوام کی بڑی تعداد نے یکجہتی کے لئے شہید فدا چوک کا رخ کیا اور بالاچ کے اہلخانہ سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ عوام کے علاوہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ، سمی دین بلوچ، بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی سابقہ چئیرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، بلوچ وومن فورم کی سربراہ ڈاکٹر شلی بلوچ نے شرکت کی۔جبکہ بلوچستان بار کونسل کی جانب سے عدالتوں کا بائیکاٹ، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے شٹر ڈاون ہڑتال، پہیہ جام ہڑتال، مظاہرے اور ریلیوں کے انعقاد کے علاوہ پریس کانفرنسوں کا بھی انعقاد کیا گیا۔دوران دھرنا باقی تین لاشوں کی شناخت بھی جبری گمشدہ افراد کے طور پر ہوئی جن میں سیف بلوچ(یکم اگست تربت سے جبری گمشدہ) شکور بلوچ(25 جون تمپ سے) اور ودود ولد مبارک سکنہ پنجگور کے نام سے ہوئی۔

لواحقین بالاچ نے پولیس کے خلاف مقدمہ درج کیا لیکن پولیس مقدمہ درج کرنے سے انکاری رہی جبکہ عدالت نے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم صادر فرمایا لیکن حکومت نے ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے سی ٹی ڈی کی حمایت کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان یا بلوچستان بلوچ نسل کشی کے مذید اقدامات کریں گے۔
ضلعی انتظامیہ کیچ نے لواحقین سے مذاکرات کرنے کی کوشش تو کی لیکن اقدامات کرنے کے بجائے اپنے حرکتوں سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ بطور محکمہ سی ٹی ڈی کے خلاف کاروائی کرنے کا اختیار ان کے پاس نہیں اس لئے مذاکرات مکمل ناکامی کا شکار ہوئے۔

ناکامی کے بعد شہید کی بہن نجمہ بلوچ کو حراساں کیا گیا اور چار کروڑ کی آفر کرکے اس دھرنے کو ختم کرنے کے لئے دباؤ ڈالا لیکن نجمہ بلوچ کی بہادری اور استقامت نے ریاست اور اسکے حواریوں کو ناکام کردیا۔ دھرنے کے دوران مختلف بلوچ علاقوں میں بلوچ نسل کشی اور بالاچ کے اہلخانہ سے اظہار یکجہتی کے لئے حب، کراچی،کوئٹہ،ڈیری غازی خان، لاہور، اوستہ محمد میں مظاہرے کئے گئے جبکہ بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے لندن اور جرمنی میں پروگرامز منعقد کئے گئے۔ اٹھائیس نومبر کو جسد خاکی کو دفنانے کا اعلان ہوا اور انتیس نومبر کو عوام کی کثیر تعداد کے ہمراہ شہید کی جسد خاکی کو سپرد گلزمین کردیا گیا لیکن دھرنا جاری رہا جس کے خوف سے ریاست نے تربت اور گردونواح میں انٹرنیٹ کو منقطع کردیا تاکہ سوشل میڈیا میں مظاہرین کی آواز کو دبایا جاسکے۔جبری گمشدہ افراد کے رجسٹریشن کے لئے کیمپ قائم کیا گیا جبکہ پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے چمن دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے اس دھرنے کی حمایت اور اس میں شرکت کا اعلان کرکے ریاست اور حکومت کے خوف میں مذید اضافہ کردیا جس کی وجہ سے منظور کے قافلے پر فائرنگ، اور اسکی گرفتاری کے بعد بلوچستان بدری اور جسمانی ریمانڈ کی منظوری دیکر ریاست نے اپنی کمزوری کا اظہار کردیا۔

تحریک کا دوسرا مرحلہ:

اس تحریک کے دوسرا مرحلے کا اعلان بذریعہ پریس کانفرنس دو دسمبر 2023 کو کیا گیا جس میں اعلان کیا گیا کہ تربت سے کوئٹہ لانگ مارچ کیا جائے گا اور یہ لانگ مارچ مختلف علاقوں سے سفر اور قیام کرتے ہوئے کوئٹہ پہنچے گی۔لانگ مارچ کا قافلہ ہیرونک، تجابان،شاپک اور ہوشاب سے بذریعہ سڑک پنجگور کی طرف روانہ ہوئی جہاں عوام کی کثیر تعداد نے مارچ کا استقبال کیا اور جبری گمشدہ ہونے والے پیاروں کی رجسٹریشن کرائی، جب قافلہ پنجگور پہنچا تو عوام نے بھرپور استقبال کیا۔ دو دن پنجگور میں قیام کے دوران ریلی اور شٹر ڈاون ہڑتال کی کال دی گئی اور یہ قافلہ ناگ، بیسمہ، گریشگ اور نال تک پہنچی اور رات کو نال میں ہی قیام کیا عوام کی کثیر تعداد کی شرکت کے بعد یہ قافلہ خضدار کی جانب روانہ ہوا اور وہاں سے سوراب،قلات،منگوچر، مستونگ اور کوئٹہ پہنچا، دس مختلف مقامات پر قافلے کو روکنے کی کوشش اور دو تین مقامات پر تشدد کے واقعات بھی دیکھنے کو ملے ، کوئٹہ سریاب کے مقام پر دھرنا دیا گیا اور ریلی جامعہ بلوچستان تک نکالی گئی جبکہ شٹر ڈاون ہڑتال کے علاوہ سیمینار اور پریس کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ نے پریس کانفرنس میں حکومت کی غیر ذمہ دارانہ رویوں کی جانب توجہ دلایا اور مارچ کو کوئٹہ سے اسلام آباد منتقل کرنے کا اعلان کیا۔

لانگ مارچ کا تیسرا مرحلہ۔

تیسرے مرحلے کا آغاز کوئٹہ سے گرینڈ رخصتی کی صورت میں ہوا جہاں کوئٹہ سے دکی پشتون تحفظ موومنٹ کے دوستوں نے مارچ کا استقبال کیا اور بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کیا اسکے بعد کوہلو کی جانب سفر شروع ہوا جب مارچ کوہلو پہنچا تو ہزاروں کی تعداد میں عوام نے استقبال کیا۔ریلی جلسہ و جلوس کی شکل میں بارکھان پہنچا، بارکھان سے ڈیرہ غازی خان ،تونسہ کے راستے ڈیرہ اسماعیل خان روانہ ہوا جہاں عوام کی کثیر تعداد کا استقبال چیخ کر کہہ رہا تھا کہ کوہ سیلمان بلوچستان کا ایک ایسا حصہ ہے جس کے بغیر بلوچستان نا مکمل ہے۔لیکن جب مارچ اسلام آباد پہنچا تو ریاستی غیر سنجیدگی اپنے عروج پر تھی جس نے بزرگوں، خواتین اور بچوں پر لاٹھی چارج کرکے اپنی استحصال کو مکمل عیاں کردیا۔ لیکن مارچ گرفتاریوں، اسلام آباد بدری احکامات باوجود اسلام آباد پریس کلب پہنچا۔

ریاستی غیر سنجیدگی:

بلوچستان اور پاکستان کا رشتہ غلام اور آقا کا رشتہ ہے جہاں آقا نے ہمیشہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اسی غیر سنجیدگی نے اسے نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا میں شرمسار کردیا ہے۔ پرنس آغا کریم سے لیکر نوروز خان تک غیر سنجیدگی کا عنصر ہمیشہ ریاست کی طرف سے نمایاں رہا ہے۔ اس مارچ کے شروع ہونے سے قبل جب دھرنا شروع ہوا اس وقت بھی ریاست نے بھرپور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور طاقت و دھمکی کا استعمال کرکے نجمہ کو حراساں کیا تاکہ مارچ ختم ہوسکے۔ اس کے بعد جب لانگ مارچ شروع ہوا تو متعدد مقامات پر مارچ کو روکنے کی کوشش کی گئی اور کئی مقامات پر لاٹھی چارج کے واقعات بھی سامنے آئے، خضدار میں شرکا پر ایف آئی آر جبکہ دوسرے ایف آئی آر میں سائرہ بلوچ کے نام کا اندراج کرکے ریاستی غیر سنجیدگی اور بیوقوفی مزید نمایاں ہوگئی ہے۔کوہلو میں شرکا پر ایف آئی آر،ڈیرہ غازی خان میں دفعہ 144 کا نفاذ، لوگوں کی گرفتاری اور ان پر تشدد، ڈیرہ اسماعیل خان میں شرکا پر ایف آئی آر کا اندراج مکمل غیر سنجیدگی کی عکاس ہے۔ڈیرہ غازی خان میں ٹرانسپورٹر کو دھمکانا ،اسلام آباد کے حدود میں گرفتاری اور تشدد ،اسلام آباد بدری کے احکامات اور اسپیکر چوری کرکے ریاست نے اپنے ماتھے پر ایک ایسا داغ چھپکا دیا جو ہمیشہ اس کی غیر سنجیدگی اور جبر کو عیاں کرتا رہے گا۔جب مارچ کے شرکا پر لاٹھی چارج کیا گیا تو بلوچستان سمیت کراچی، کوہ سلیمان میں احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا تو وہاں بھی ایف آئی آر درج کرکے لوگوں کو ڈرانے کی غیر سنجیدہ کوششیں بروئے کار لائی گئی تھی۔

مظلوموں کا اتحاد:

یہ صرف بلوچ نسل کشی کے خلاف ایک مارچ نہیں ہے اور نہ ہی صرف بلوچ بقاء کا ضامن تھا بلکہ اس مارچ میں مظلوموں کا اتحاد بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ حقیقت ہے کہ مظلوم ہونے کے لئے نہ خون کے رشتے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی زبان اور ثقافت کا رشتہ ہونا ضروری ہے بلکہ مظلوم کا اتحاد ظالم کے جبر کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہونے اور ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کا احساس کرنے سے جنم لیتا ہے۔ حالیہ بلوچ لانگ مارچ میں یہ احساس دیکھنے کو ملا جس نے ریاست کو پریشان کر رکھا ہے کیونکہ یہ وہ مظلوم ہے جو کئی سالوں سے پاکستانی ظلم و جبر کو برداشت کررہے تھے اور آج بلوچوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف ان کے ساتھ اپنی بساط کے مطابق کھڑے ہوئے تھے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ کا تربت جانے کا اعلان، مختلف مقامات پر استقبال اور اسلام آباد میں مختلف قومیتوں کا کیمپ آمد اور اظہار یکجہتی ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام مختلف قومیت کے افراد ریاستی ظلم و ستم سے تنگ ہے اور اتحاد کے ذریعے اس ریاستی نظام سے نجات چاہتے ہیں۔سندھی قوم پرستوں نے بھی بلوچوں سے اظہار یکجہتی کے لئے مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے کئے۔

ریاستی میڈیا اور پروپگینڈہ:

ریاست پاکستان نے ہمیشہ بلوچستان میں ہونے والے مظالم کو چھپانے کے لئے مقامی و عالمی میڈیا کو بلوچستان کے مسلئے کو اجاگر کرنے سے روکے رکھا اور ریاستی میڈیا نے ہر دور میں ریاستی بیانئیے کے مطابق بلوچستان کو ترقی یافتہ ظاہر کیا اور ہمیشہ اپنی پسند کے مطابق کوریج دینے کی استدعا کی، بلوچستان میں جاری مسلح تحریک کو دہشت گردی اور پر امن تحریکوں کو دہشت گردوں کی حمایت کی تحریک قرار دیا گیا اور آج جب بلوچ نسل کشی کے خلاف ایک منظم تحریک تربت سے شروع ہوئی تو ریاستی پروپگینڈے میں بھی تیزی دیکھنے میں آئی۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان جان اچکزئی نے ہر پریس کانفرنس میں شہید بالاچ بلوچ کو بی ایل اے سے منسلک کرنے کی کوشش کی اور لانگ مارچ کو بیرونی فنڈگ قرار دیا، اسی طرح وزیر اعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ نے بھی ایسے ہی کچھ بیانات داغ کر ثابت کیا کہ وہ جی ایچ کیو کے کٹھ پتلی ہے۔
اسلام آباد میں جاری احتجاج کے دوران پاکستان کے صحافی غریدہ فاروقی نے ڈاکٹر ماہرنگ کے خلاف منظم مہم چلائی اور اپنے سوالات میں بی ایل اے کی مذمت اور پنجابی مزدور( ریاستی ایجنٹ) کے قتل کی مذمت کرنے پر زور دیا اور اپنے پروگرامز میں باقاعدہ اس مارچ کو بیرونی فنڈگ اور ڈاکٹر ماہرنگ کو بی ایل اے سے جوڑنے کی کوشش کی، ڈاکٹر ماہرنگ کو سرکاری نوکر اور ان کے شہید والد کی تصاویر میڈیا میں منظم مہم کے لئے استعمال کیا، اسی طرح ایک اور صحافی نے بھی یہی بیہودہ سوالات کو دہرایا۔ جبکہ سوشل میڈیا میں متحرک نواز لیگ کے کچھ کارندوں نے بھی اس مسلئے کے خلاف بھرپور پروپیگنڈہ کیا تاکہ عوام کی حمایت اس مارچ کو حاصل نہ ہو لیکن بلوچ قوم کی ہمت و استقامت نے ان کو مکمل ناکامی سے دو چار کیا۔

عالمی و مقامی پذیرائی:

کہتے ہیں کہ اگر کسی کو طاقت کے زور پر روکنے کی کوشش کرو گے تو وہ اپنی شکل و ہیت بدل کر ایک اور روپ میں سامنے آتی ہے۔ جس طرح سیلاب کے پانی کا بہاو روکنا ناممکن ہے اسی طرح عوامی آواز کو دبانا بھی ناممکن ہے۔ ریاست اور ریاستی میڈیا نے ہر دور میں طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچ آواز کو دبانے کی کوشش کی اور کہیں مقام پر ریاستی حکمت عملی کامیاب بھی نظر آئی۔ لیکن جب تربت سے اسلام آباد لانگ مارچ کا آغاز ہوا تو ریاست نے طاقت اور پروپگینڈے سے آواز کو دبانے کی کوشش کی لیکن یہ آواز دبنے کے بجائے مزید ابھر کر سامنے آئی مقامی سطح پر حامد میر، عاصمہ شیرازی، اشد بٹ، ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان، اسد طور، مطیع اللہ جان اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں اور صحافیوں نے مارچ کی مکمل حمایت کی اور تعاون کا یقین دلایا۔ملالہ یوسفزئی نے بھی بلوچ قوم کی حمایت کی۔جبکہ نامور صحافی محمد حنیف نے اپنا ستارہ امتیاز کا سرکاری اعزاز واپس کرنے کا اعلان کیا۔عدالتوں کا مکمل اوقات میں بائیکاٹ بھی کیا گیا جبکہ عالمی سطح پر ایمنسٹی جنوبی ایشیاء، ایمنسٹی انٹرنیشنل، یورپی سفیر نے مذمت اور تشویش کا اظہار کیا جبکہ برطانیہ کی پارلیمنٹ میں جبری گمشدگیوں کے خلاف پارلیمنٹ میں بل بھی پیش کیا گیا جو پاکستان کے لئے باعث شرم اور بلوچ قوم کے لئے ان کے جدوجہد کی کامیابی کی نوید ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بلوچوں کی آواز دنیا بھر میں پہنچ چکی ہے، کرد جنگجوؤں نے بھی اس تحریک کی حمایت کی ہے۔

قومی بیداری:

ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ صرف ایک لانگ مارچ نہیں بلکہ بلوچ کے بقاء کا مسلہ ہے۔ واقعی بلوچ کئی سالوں سے بقاء و زیست کے مسائل سے دوچار ہے اور ریاستی طاقت نے بلوچ سماج میں ایک ایسے خوف کو جنم دیا تھا اور اس خوف کے بت کو توڑنے کے لئے سیاسی سرگرمیاں نہایت ہی لازمی تھی۔ شہید بالاچ کے اہلخانہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اقدام سے نہ صرف خوف کے بادل چھٹ گئے بلکہ اس سیاسی و انسانی حقوق کی سرگرمی نے خوف کو ریاست کے جسم میں پیوست کرکے سماج سے خوف کا خاتمہ کردیا۔
کئی دہائیوں سے سیاسی سرگرمیوں کی معطلی کی وجہ سے قومی بیداری کا جو عنصر شہید غلام محمد،ڈاکٹر منان ،شہید لمہ کریمہ اور دیگر شہیدوں کی قربانیوں نے جنم دیا تھا وہ دوبارہ ایک مضبوط عزم کے طور پر سامنے آئی، کراچی سے لیکر کوہ سلیمان، اور کوہ سلیمان سے لیکر کوئٹہ اور کوئٹہ سے تربت تک پورا بلوچستان لانگ مارچ کے شرکاء پر لاٹھی چارج کے خلاف سڑکوں پر نکل آیا اور ریاستی ظلم و جبر کے سامنے اپنی بھرپور نفرت کا اظہار کیا جس سے عیاں ہوتا ہے کہ بلوچ قوم بیدار ہوچکی ہے۔ بقول ڈاکٹر ماہرنگ کہ ہماری کامیابی یہ ہے کہ ہم نے اپنے قوم کو بیدار کردیا ہے۔

ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ:

بلوچ سماج نے ایسے کئی رہنماوں کو جنم دیا جنہوں نے قومی بقاء کے لئے اپنے عمل و قربانی کے ذریعے سماج کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے آشکار کیا، بی بی گل،بانڑی، کریمہ، ماہرنگ ،صبیحہ، سمی دین، شلی بلوچ اور دیگر کئی خواتین آج بھی منظم و متحرک ہو کر اپنے سماج کی خدمت کررہے ہیں۔
تمام خواتین کی حالیہ جدوجہد قابل ذکر ہے لیکن اس مارچ میں ڈاکٹر ماہرنگ میڈیا اور ریاستی پروپگینڈہ کا زیادہ شکار ہے جو عیاں کرتا ہے کہ ریاست ماہرنگ کی جدوجہد اور سوچ و فکر سے خوفزدہ نظر آتا ہے اور اپنے پروپگینڈے کے ذریعے ماہرنگ بلوچ کو روکنے کی کوشش کررہا ہے۔ ماہرنگ بلوچ پہلی بار 2009 میں اس وقت سامنے آئی جب اسکے والد کو جبری گمشدہ کردیا گیا اور بعد میں اسکی مسخ شدہ لاش گڈانی حب میں پھینک دیا گیا۔ ماہرنگ کے بھائی کو بھی ایک بار جبری گمشدہ کیا گیا تھا۔ جس طرح بلوچستان کے ہر فرد کا درد مشترک ہے اسی طرح ماہرنگ بلوچ بھی ریاستی بربریت کا شکار ہوئی اور اسی وجہ سے وہ اس درد کو محسوس کرتے ہوئے اس درد کی دوا کی تلاش میں نکل پڑی اور ریاست کے لئے درد سر بن گئی ہے اس لیے ریاست ماہرنگ بلوچ کے خلاف بھرپور پروپگینڈہ کررہی ہے۔
میرے نظر میں ڈاکٹر ماہرنگ 2023 میں سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیت بن کر سامنے آئی ہے۔ جس طرح کریمہ کی جدوجہد نے کریمہ کی شکل میں ماہرنگ، صبیحہ، سمی اور دیگر خواتین کو متحرک کیا ہے اسی طرح ماہرنگ کی جدوجہد متعدد ماہرنگ کو جنم دینے کا باعث بنے گی۔

اختتامیہ:

اس مختصر مضمون میں عہد ساز لانگ مارچ کو الفاظ میں پرونا میرے بساط سے باہر ہے لیکن کوشش کی کہ اس تحریر کے ذریعے کچھ نکات پر قلم آرائی کرو تاکہ اس عہد ساز لانگ مارچ کے اثرات کو آپکے سامنے لاسکوں۔ یہ لانگ مارچ بقا کا مسلہ ہے، زندہ رہنے کا مسلہ ہے جس نے پوری ریاستی مشینری کو دنیا کے سامنے شرمندہ کردیا ہے اور خواتین ،بچوں کی ہمت نے آئی ایس آئی کا چہرہ نہ صرف پاکستانیوں بلکہ دنیا کو دکھادیا ہے اس لئے یہ مکمل پریشان ہے اس لئے اپنے صحافیوں کے ذریعے اور فرح عظیم جیسے کرداروں کو سامنے لاکر اسے ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

آج ڈاکٹر ماہرنگ نے یکجہتی کمیٹی کے پلیٹ فارم سے کل پورے پاکستان میں شٹر ڈاون ہڑتال کی کال دی ہے اور تمام لوگوں سے اپیل کی ہے کہ اس کو کامیاب بنانے میں کردار ادا کریں۔ تمام قومیت کے افراد سے گزارش ہے کہ بلوچ قوم کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اس ظلم کی تاریکی سے نکلنے میں اپنا کردار ادا کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔