فرینڈلی فائر
تحریر: انور ساجدی
دی بلوچستان پوسٹ
ایران اور پاکستان کے درمیان جنگ ٹل گئی یہ اچھی بات ہے لیکن سوشل میڈیا پر تواتر کے ساتھ یہ رائے آ رہی ہے کہ ایک دوسرے پر کارروائی کے بعد حالات معمول پر آنا مک مکا یا نورا کشتی کا نتیجہ ہے۔ گولڈ اسمتھ لائن کے دونوں طرف 12بچے ان حملوں کی زد میں آئے اور بس۔ تاہم پاکستانی مخصوص حلقے ایران پر کارروائی کو ایک بڑی فتح سے تعبیر کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر باقاعدہ جشن منا رہے ہیں۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وقتی فتح سے قطع نظر سرحد کے دونوں طرف رہنے والوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان فہرستوں کا تبادلہ ہو جس کے بعد وسیع تر آپریشن شروع کیا جائے۔
دیکھنا یہ ہے کہ یہ آپریشن عام انتخابات کے بعد ہوگا یا پہلے۔ وقت کا تعین ادارے اور مقتدرہ حلقے کریں گے۔ باالفرض محال عام انتخابات ہو بھی گئے اور ایک سیاسی حکومت قیام پذیر ہوئی تو بھی سرجیکل آپریشن پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ایسی حکومت کا اقتدار میں آنا مشکل ہے جو بااختیار ہو اور وہ ملکی معاملات اپنے تئیں طے کر سکے۔ اگر ن لیگ حکومت میں آ گئی تو وہ پہلے سے طے شدہ معاہدے پر چلے گی جس کے تحت وہ سیکورٹی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرے گی۔ اگر وزیراعظم بڑے میاں صاحب ہوئے تو وہ بلوچستان کے سرکاری قوم پرستوں سے مشاورت ضرور کریں گے لیکن ہوگا وہی جو مقتدرہ حلقے چاہیں گے۔ 2013 سے 2018 تک نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ن لیگ کی حکومت کا حصہ تھیں لیکن ان کے دور میں بھی بلوچستان میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ آپریشن مزید تیز کر دیا گیا تھا۔ اسی دور میں سی پیک کا معاہدہ ہوا جس کے تحت گوادر پورٹ چین کے حوالے کردی گئی۔ اس معاہدہ پر ڈاکٹر مالک اور محمود خان اچکزئی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ زمینی حقائق اس طرح ہیں کہ ڈاکٹر مالک کی حکومت نے ساحل اور وسائل لکھ کر دے دئیے لیکن آج بھی وہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ ہم ساحل و وسائل پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ یہ ایسا تضاد ہے کہ عوام اسے بخوبی سمجھتے ہیں کیونکہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور کوئی بھی چیز مخفی رکھی نہیں جا سکتی۔
بلوچستان کی بدقسمتی سمجھے یا کچھ اور کہ جب بیرک گولڈ کمپنی سے ریکوڈک کا معاہدہ ہوا جو یک طرفہ تھا اور جس کی منظوری بلوچستان اسمبلی سے لی گئی جبکہ سپریم کورٹ سے بھی منظوری حاصل کی گئی اس کے خلاف کوئی موثر آواز بلند نہیں کی گئی۔ ایسی اسمبلی ایسی پارلیمان اور ایسی سیاست کا کیا فائدہ کہ جب بلوچستان کا سب سے بڑا معدنی وسیلہ کوڑیوں کے مول یا پراسرار طریقے سے نیلام کیا جا رہا تھا تو تمام لیڈر خاموش رہے۔ قدوس بزنجو کے ساتھ پوری اسمبلی اس جرم میں برابر کی شریک تھی اور تو اور بی این پی مینگل بھی اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی ۔اس طرح ناکام پارلیمانی سیاست کسی وژن سے محروم سیاست دان اور وقتی مصلحت کے شکار لیڈروں نے بلوچستان کے عوام کو یہ موقع دیا کہ وہ غوروفکر کے بعد اپنے لئے ایک جدا راستے کا انتخاب کریں۔ آج تفریق اتنی بڑھ گئی ہے کہ عوام اور ان سیاست دانوں کا عملی تعلق ختم ہو چکا ہے ورنہ قیادت بچیاں اور خواتین انپے ہاتھوں میں نہ لیتیں۔
”اسلام آباد دھرنے کے دوران ماہ رنگ بلوچ نے واضح طور پر کہا کہ ہم زندہ لوگ نہیں ہیں ہم مرچکے ہیں کیونکہ ہمیں زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے برملا کہا کہ ہماری جو زندگی ہے وہ ہم قربان کر دینے کےلئے تیار ہیں۔“
یہی نظریہ اس وقت بلوچستان کے طو ل و عرض میں موجزن ہے۔ لوگ روایتی سیاست دانوں سے بیزار آ چکے ہیں۔ ان کی حیثیت گماشتہ کے سوا کچھ نہیں اور وہ تابع فرمان بن کر مزید مراعات اور آسودگیوں کے لئے عرضی گزار ہیں۔ جب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ تھے تو انہیں اس تلخ تجربہ کا سامنا کرنا پڑا کہ پہلے مذاکرات شروع کرنے کا کہا گیا یہ ڈیوٹی وزیراعظم نوازشریف نے انہیں سونپی ۔ڈاکٹر صاحب نے لندن اور جنیوا جا کر رابطے کئے لیکن واپسی پر وزیراعظم نے فرمایا کہ وہ اس سلسلے کو آگے نہ بڑھائیں کیونکہ ان سے یہی کہہ دیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے حکمران کچھ اور سوچ رہے ہیں۔ وہ بلوچستان کے عوام کو کسی خاطر میں نہیں لا رہے ہیں بلکہ انہیں حقیر سمجھ کر ان کے ساتھ ایسا سلوک کر رہے ہیں جیسے ہندومت میں شیڈولڈ کاسٹ یا شودروں کے ساتھ کیا جاتا ہے یا امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں ریڈ انڈین کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ جو حیثیت آسٹریلیا میں ابار جینی آبادی کی ہے وہی بلوچستان کی اپنی ریاست میں ہے۔ چند عہدے دے کر دنیا کو یہ بتانا کہ وزیراعظم بلوچستان سے ہے چیئرمین سینیٹ کا تعلق اسی صوبے سے ہے جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی یہیں سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا بلوچستان کے عوام کو اور کیا چاہیے پاکستان کے حکمران بلوچستان کے مسئلہ کو ایک اور تناظر سے دیکھ رہے ہیں جبکہ بلوچستان کے عوام ان عہدوں اور مراعات کو اہمیت نہیں دیتے وہ اپنی سرزمین کے حق مالکانہ کی واگزاری کی جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ حکمران بلوچستان کی سرزمین اور اس کے وسائل کو اپنا بنانے کے لئے تیار ہیں لیکن وہ اس کے اصلی باشندوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اگر بلوچستان اپنے مالکان کا نہ رہا تو مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے حکمران جان بوجھ کر موشگافیوں کے ذریعے معاملہ کو الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ وہ گماشتہ سیاست دانوں، سرداروں اور تابع فرمان شخصیات کو اپنے ساتھ ملا کر اپنے مقاصد پورا کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوگا۔اس کے خلاف طویل عرصہ سے مزاحمت جاری ہے۔ یہ مزاحمت اب شہروں اور قصبوں تک پہنچ گئی ہے جس کی حیثیت پرامن انتفادہ کی ہوگئی ہے۔ جبر سے یا طاقت سے اگر عوام کا یہ حق چھین لیا گیا تو حالات مزید خراب ہوں گے اور مسئلہ بلوچستان کی بازگشت کرہ ارض کے طول و عرض میں سنائی دے گی جیسے کہ حالیہ آپریشن”مرگ بر سرمچار“ نے ساری دنیا تک یہ بات پہنچا دی کہ سرمچارکس کو کہتے ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے۔ پاک ایران کشیدگی جو بلوچستان تک محدود تھی لیکن ا س پر جوبائیڈن سمیت دنیا کے تمام سربراہان نے تبصرے کئے جبکہ چین روس اور ترکی ثالثی کے لئے کود پڑے۔ اگر حکمران اپنے لوگوں سے گفت وشنید نہیں کریں گے اور اس کے بجائے بنیادی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رکھیں گے تو عالمی اداروں کو میدان میں آنا پڑے گا کیونکہ1970 کی دہائی نہیں ہے۔ ساری دنیا ہر جگہ اور ہر مقام کے حالات سے بخوبی آگاہ ہے۔ موجودہ حکمران شاباشی کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پہلی مرتبہ بلوچ مسئلہ کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔ آج یہ مسئلہ کرد مسئلہ کا ہم پلہ ہوگیا ہے۔
بلوچوں کی جو برگزیدہ ہستیاں ہیں جو پارلیمانی جماعتوں کے قائدین ہیں انہیں چاہیے کہ وہ عوامی جذبات کا ساتھ دیں۔ عہدوں پر وہ پہلے بھی براجمان رہے ہیں اگر آئندہ بھی ہونگے تو اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اگریہ لیڈر عام انتخابات کا بائیکاٹ کر کے حکمرانوں پر جبری گمشدگیوں اور بلاضرورت کارروائیوں کو روکنے کا مطالبہ کرتے تو ضرور ان کی بات سنی جاتی۔ ایک بے اختیار اسمبلی یا پارلمان میں جانے کا کیا فائدہ وہاں تقاریر سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں کیونکہ ان کی آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بہتر ہوتا کہ یہ ملازمتوں کے طلب میں گرنے کے بجائے اپنے عوام کا ساتھ دیتے تو نتیجہ مختلف ہوتا۔
جہاں تک عام انتخابات کا تعلق ہے تو یہ مذاق اور”شیم الیکشن“ کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ ایسے ہائبرڈ اور کنٹرول الیکشن اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت کو آﺅٹ کر کے جو تماشا برپا کیا جا رہا ہے اسے کون تسلیم کرے گا جو جاہ طلب سیاست دان آج انتخابی مہم کے دوران ایک دوسرے پر شدید تنقید کررہے ہیں انتخابات کے بعد جب وہ مل جل کر مخلوط حکومت بنائیں گے تو ان کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔ کیا عوام اتنے بے و قوف ہیں کہ 21ویں صدی میں بھی انہیں دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ کمال کی بات ہے کہ میاں نوازشریف کہہ رہے ہیں کہ اگر انہیں نہ نکالا جاتا تو روٹی چار روپے کی ہوتی۔ ایسا نعرہ تو پی این اے نے1977 کی تحریک کے دوران بھی لگایا تھا لیکن وہ1970 کی قیمتوں کو واپس لانے کے بجائے ملک کا بیڑہ غرق کر کے چلے گئے۔ اگرچہ پانامہ کیس میں شدید جانب داری برتی گئی لیکن میاں صاحب پر ایون فیلڈ کے اپارٹمنٹس خریدنے کا جو الزام ہے وہ تو سو فیصد ثابت ہے کیونکہ ایون فیلڈ آج بھی میاں صاحب کی ملکیت ہے اور وہ چار سال انہی فلیٹوں میں رہ کر آئے ہیں جبکہ انتخابات کے بعد دوبارہ رہنے واپس جائیں گے۔ بلاول کے بقول انہوں نے آج تک منی ٹریل نہیں دیا۔
خود بلاول کا یہ حال ہے کہ وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو توسیع دینا چاہتے ہیں۔ اتنی بھاری رقم سے وہ کارخانے قائم کر کے بنگلہ دیش کی طرح خواتین کو روزگار کیوں فراہم نہیں کرتے۔ کوئی معاشی اور سماجی پروگرام بھیک سے کامیاب نہیں ہوسکتا۔ بلاول کو اپنے10 نکاتی الیکشن پروگرام کو بہتر کرنا چاہیے کیونکہ یہ کوئی انقلابی اور ہمہ جہتی پروگرام نہیں ہے اس کے ذریعے وہ اکثریتی ووٹ لے کر حکومت نہیں بنا سکتے۔ بلاول کو ثابت کرنا ہوگا کہ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں میں فرق ہے جبکہ اس وقت تمام جماعتوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ انہیں جمہوریت کی بحالی کا پلان بھی دینا چاہیے کیونکہ کافی عرصہ سے اس ملک میں جمہوریت کے نام پر مذاق ہو رہا ہے جب کسی نام نہاد حکومت کو اختیار ہی نہ ہو تو بہتر ہوگا کہ سیاسی جماعتیں ایسی حکومت نہ بنائیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔