فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ریلیف اینڈ ورکس کے ادارے میں مواصلات کی ڈائریکٹر جولیٹ ٹوما کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت اہم ہے کہ غزہ کے لیے امداد میں اضافہ جاری رہے کیوں کہ ہم قحط کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘
برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’امداد دو گزرگاہوں کے ذریعے آ رہی ہے، نہ صرف مصر بلکہ اسرائیل کے ساتھ بارڈر سے بھی اور ہم امداد کے بہاؤ میں معمولی اضافہ دیکھ رہے ہیں اور یہ بہت اہم ہے کہ یہ اضافہ جاری رہے کیوں کہ جیسا کہ میں نے آپ کو پہلے بتایا تھا، ہم قحط کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’غزہ کی ان پناہ گاہوں میں اب کوئی جگہ نہیں ہے۔ لوگ یا تو کھلے آسمان تلے رہ رہے ہیں یا کچھ اپنی گاڑیوں میں، کچھ لوگ بہت زیادہ قیمتوں پر صرف ایک کمرہ کرایہ پر لے کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بمباری جاری ہے، نقل مکانی جاری ہے۔ کئی بار ہمارے اپنے عملے کو بھی چار سے پانچ بار نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔‘
اسرائیلی بمباری سے غزہ میں اموات اور زخمیوں کی تعداد کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے جولیٹ ٹوما نے کہا کہ ’بالکل یہ اعداد و شمار حیران کن ہیں اور ان میں ہر گھنٹے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ہم نے بھی 142 ساتھیوں کو کھو دیا جو جنگ شروع ہونے کے بعد سے مارے گئے ہیں۔
’یہ وہ اعدادوشمار ہیں جن کی ہم تصدیق کر سکتے ہیں۔ ڈر ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ دیگر شہری انفراسٹرکچر کی طرح ہسپتالوں اور طبی سہولیات میں زخمیوں کے علاج کے لیے ادویات اور دیگر سامان سمیت بنیادی چیزوں کی بھی کمی ہے۔ اسی لیے طبی سہولیات سمیت بہت زیادہ انسانی امداد کی فراہمی کی ضرورت ہے۔‘
“The bombardment continues, the displacement continues.”@JulietteTouma tells @BBCNews that it is critical to continue the increase in aid delivery into the📍#GazaStrip as “we are counting down towards famine” pic.twitter.com/5HX6dOicfQ
— UNRWA (@UNRWA) January 8, 2024
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے غزہ کی وزارت صحت کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیلی جارحیت میں اب تک 23 ہزار 84 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ 19 لاکھ غزہ کے باشندے بے گھر ہیں، جن میں قحط اور بیماریاں پھیلنے کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔
فلسطینی گروپ حماس نے سات اکتوبر کو اچانک اسرائیل پر ایک غیر معمولی حملہ کیا جس کے نتیجے میں تقریباً 1140 افراد مارے گئے تھے۔
اسرائیل کے مطابق فلسطینی گروپ حماس نے اس کے تقریباً 250 افراد کو قیدی بھی بنایا جن میں سے 100 سے زیادہ قیدی اب بھی حماس کے پاس ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کم از کم 24 قیدی مارے جا چکے ہیں۔
اسرائیل کئی بار اعادہ کر چکا ہے کہ فلسطینی گروپ حماس کے خلاف جنگ 2024 میں بھی جاری رہے گی تاہم امریکہ سمیت دیگر ممالک اس جاری تنازع میں بتدریج کمی اور بالآخر خاتمے کے لیے سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
امریکی وزیرخارجہ اینٹنی بلنکن سات اکتوبر کے بعد سے اپنے چوتھے دورے پر مشرق وسطیٰ میں موجود ہیں۔ خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق وہ پیر کی شب دیر سے تل ابیب پہنچے ہیں تاکہ اسرائیلی حکام کو جنگ کے خاتمے کے لیے عرب رہنماؤں کے ساتھ اپنی دو روزہ بات چیت کے بارے میں آگاہ کر سکیں۔