اسرائیلی فوج نے منگل کو کہا کہ غزہ میں اس کے 24 فوجی ایک ہی دن میں ہلاک ہو گئےجو غزہ میں اکتوبر میں جنگ چھڑنے کے بعد سے اسرائیلی فوجیوں کی سب سے زیادہ ہلاکتوں کا دن تھا۔
ان اموات کا اعلان اسرائیل نے ایسے میں کیا ہے جب اس کی فورسز نے جنوبی غزہ کے مرکزی شہر خان یونس سے انخلا کی کوشش کرنے والے فلسطینیوں کو گھیرے میں لیتے ہوئے ایک بڑا زمینی حملہ کیا۔
فلسطینی صحت کے حکام نے بتایا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں کم از کم 195 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور مرنے والوں کی کل تعداد 25 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔
ایک اسرائیلی فوجی ترجمان نے بتایاکہ اسرائیلی فوجی پیر کے روز اس وقت ہلاک ہوئے جب ان دو عمارتوں میں دھماکے ہوئے جہاں فوجیوں نے بارودی سرنگیں نصب کی تھیں۔ یہ دھماکے حماس کے عسکریت پسندوں کی جانب سے عمارتوں کے قریب ایک ٹینک پر فائرنگ کے بعد ہوئے ۔
دوسری جانب غزہ کی وزارتِ صحت کے ترجمان اشرف القدرہ نے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب غزہ کے قریب ایک قصبے خان یونس میں اسرائیلی افواج نے فضا، زمین اور سمندر سے بمباری کی جس میں ایک اسپتال کو نشانہ بنایا گیا اور طبی عملے کو گرفتار کیا گیا۔
غزہ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل فورسز نے کچھ اسپتالوں کی ناکہ بندی اور ان پر دھاوا بولا جس کے نتیجے میں ریسکیو عملہ زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں تک نہیں پہنچ پا رہا۔
اسرائیل کی جانب سے اسپتال کی صورتِ حال پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں حماس کے باقی ماندہ مضبوط مراکز پر حملہ کر رہا ہے اور سرحد کے قریبی علاقوں کو صاف کرنےکی کوشش کر رہا ہے
جنگ بندی کے معاہدے کی صورتِ حال
اسرائیلی حکومت کے ترجمان ایلان لیوی نے منگل کو ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ اسرائیل حماس کے ساتھ جنگ بندی کے کسی ایسے معاہدے پر رضامند نہیں ہو گا جس کے تحت غزہ میں اس کے یرغمال قید میں رہیں یا عسکریت پسند گروپ حماس، محصور شہر میں مسلسل اقتدار میں رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یرغمالوں کی رہائی کے بارے میں کوششیں جاری ہیں لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے وضاحت کرنے سے انکار کیا کہ صورت حال ابھی واضح نہیں ہے۔
جب ان سے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی رپورٹس کے بارے میں پوچھا گیا تو لیوی نے کہا کہ جنگ کے مقاصد میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی جنگ بندی نہیں ہو گی جس میں غزہ میں یرغمال مسلسل قید میں اور حماس حکومت میں رہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس وضاحت کے لیے کچھ نہیں ہے۔
اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں پر نیتن یاہو کا رد عمل
اس سے قبل جنوبی غزہ میں ایک الگ حملے میں اطلاعات کے مطابق تین فوجی ہلاک ہوئےتھے۔ ہلاک ہونے والے ایک فوجی کی آخری رسومات میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اسرائیل کی غزہ میں لڑائی اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک وہ مکمل فتح نہیں حاصل کر لیتا۔
نیتن یاہو نے ‘ایکس’ پر ایک پیغام میں کہا کہ جنگ کے آغاز کے بعد سے 22 جنوری اسرائیلی فورسز کے لیے سب سے مشکل دنوں میں سے ایک تھا۔
یروشلم میں اسرائیلیوں کا ردعمل
یروشلم میں کچھ اسرائیلیوں نے فوجی ہلاکتوں کو ایک ضروری قربانی کے طور پر بیان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی خوفناک واقعہ تھا ، لیکن ہمیں اس لیے برداشت کرنا پڑا تاکہ 7 اکتوبر کا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔
اگرچہ اسرائیل میں جنگ کو ابھی تک بھر پور عوامی حمایت حاصل ہے تاہم نیتن یاہو کی حکمت عملی پر بے اطمینانی پیدا ہو رہی ہے، یعنی حماس کی مکمل تباہی، لیکن اس بارے میں صرف مبہم گفتگو کہ ایسا کیسے ہو گا اور اس کے بعد کیا ہو گا۔
حماس کا غزہ پر 2007 سے کنٹرول ہے اور وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے ۔ نیتن یاہو نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی کبھی اجازت نہیں دی جائے گی، جو مشرق وسطیٰ کے اس تنازعے کے لیے، اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی واشنگٹن کی عشروں پرانی پالیسی سے متصادم دعویٰ ہے ۔
اسرائیل نے اپنی فوجی کارروائی 7 اکتوبر کو حماس کے جنگجووں کی جانب سے سرائیلی قصبوں پر حملوں کے بعد شروع کی تھی جن میں 1140 لوگ ہلاک اور لگ بھگ 240 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ اس وقت سے غزہ کی تقریباً 23 لاکھ آبادی میں سے 85 فی صد سے زیادہ اپنے گھر بار کھو چکے ہیں۔
غزہ کے اس تنازعے سے لبنان، عراق ، شام، یمن اور بحیرہ احمر سمیت مشرق وسطیٰ کے دوسرے مقامات میں بد امنی پھیل رہی ہے ۔