دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف کے ججوں نے جمعرات کے روز جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کردہ اس مقدمے کی سماعت شروع کر دی جس میں اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کرنے کا الزام لگایا گیا ہے ۔
جنوبی افریقہ نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیل کی اس فوجی مہم کو ہنگامی طور پر معطل کرائیں جس کے بارے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے سات اکتوبر کے دہشت گرد حملے کے جواب میں حماس کے عسکریت پسند گروپ کے خاتمے کی کوشش کر رہا ہے ۔
جنوبی افریقہ کی درخواست میں عدالت سے کہا گیا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ عدالت اسرائیل کو قتل عام کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر جواب دہ ٹھہرائے اور غزہ میں فلسطینیوں کے فوری اور مکمل تحفظ کو یقینی بنائے جنہیں نسل کشی اور مزید فوجی کارروائیوں کے انتہائی سنگین اور فوری خطرے کا سامنا ہے ۔
اسرائیل نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر انہیں مسترد کر دیا ہے ۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بدھ کو دیر گئے کہا کہ اسرائیلی فورسز عام شہریوں کی ہلاکت کو کم سے کم کرنے کےلیے ہر ممکن کوشش کرر ہی ہیں اور اس نے حماس کے عسکریت پسندوں پر الزام لگایا وہ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہی ہے ۔
نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل حماس کے دہشت گردوں سے لڑرہا ہے نہ کہ فلسطینی آبادی سے، اور وہ بین الاقوامی قانون کی بھر پور تعمیل کرتے ہوئے ایسا کر رہے ہیں۔
امریکہ نے، جو اسرائیل پر غزہ کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے اور وہ حماس کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی تائید بھی کرتاہے، جنوبی افریقہ کے الزامات پر اعتراض کیا ہے ۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے منگل کو یہ کہتے ہوئے اس کیس کو مسترد کر دیا کہ وہ میرٹ پر پورا نہیں اترتا۔
انہوں نے کہا کہ “یہ خاص طور پر افسوس ناک ہے کہ جو لوگ اسرائیل پر حملہ کر رہے ہیں جن میں حماس، حزب اللہ، حوثی، اور ان کا حامی ایران شامل ہیں، وہ اسرائیل کے خاتمے اور یہودیوں کے بڑے پیمانے پر قتل کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔”
حماس نے اکتوبر میں اسرائیل پر اپنے حملے میں تقریباً 1200 افراد کو ہلاک اور 240 یرغمال بنا لیا تھا، جن میں سے تقریباً نصف کو رہا کیا جاچکا ہے۔
حماس کے کنٹرول والی غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جوابی کارروائی میں اب تک 23300 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، غزہ کا بڑا حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے اور اس کی 23 لاکھ آبادی کا 85 فیصد بے گھر ہو چکا ہے۔