سمی – ذوالفقار علی زلفی

408

سمی

تحریر: ذوالفقار علی زلفی

دی بلوچستان پوسٹ

رام چندر جی کو ان کی سوتیلی ماں کیکئی کی سازشی خواہش کے باعث 14 سال بن باس میں رہنا پڑا ـ ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گم شدگی کو بھی 14 سال گزر چکے ہیں ـ کیکئی اپنے بیٹے بھرت کی تخت نشینی کی راہ میں رام کو خطرہ سمجھتی تھی ـ بھرت اپنی ماں سے اختلاف رکھ کر رام کی تلاش میں نکل پڑے تھے ـ

رام جی بن باس میں تنہا نہ تھے ـ ان کے ساتھ وفا شعار بیوی سیتا اور جان چھڑکنے والا بھائی لکشمن بھی تھے پھر ہنومان کی قیادت میں انہیں پوری وانر فوج بھی مل گئی جس کے ذریعے انہوں نے راون کے ظلم کی لنکا ڈھا دی ـ

ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے ساتھ نہ کوئی سیتا ہے اور نہ ہی لکشمن ـ انہیں بن باس بھیجنے والی کوئی سوتیلی ماں بھی نہیں ہے ـ ان کی تلاش میں البتہ متعدد بھرت اور سیتائیں نکلی ہوئی ہیں ـ راون کی لنکا کب جل کر خاک ہو اور کب رام راج قائم ہو؟، پتہ نہیں ـ

ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بہادر بیٹی سمّی بلوچ 14 سالوں سے وقت کے بے رحم راکھشس، راونِ دوراں سے لڑ رہی ہیں ـ وہ اپنے والد سمیت ان سیکڑوں افراد کی بازیابی کی جدوجہد کر رہی ہیں جنہیں زبردستی بن باس پر بھیجا گیا ہے ـ

سمّی بلوچ کو پاکستان کا اردو میڈیا “سمیع بلوچ” لکھتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود وہ بلوچ سے ناواقف ہیں ـ وہ تو آج تک بلوچ اور بلوچی کا فرق سمجھنے سے بھی قاصر ہیں ـ لنکا کے شہری جو ٹھہرے ـ

“سمّی” (س م م ی) کا مطلب غالباً معزز یا خوب صورت ہوتا ہےـ درست مطلب بلوچی زبان کے اساتذہ ہی بتا سکتے ہیں ـ میری دادی البتہ اسے خوب صورتی کے مفہوم میں استعمال کرتی تھی ـ

سمّی ایک اساطیری کردار بھی ہے ـ کہا جاتا ہے وہ ایک دولت مند بیوہ تھی جس کے مال و زر پر حریص بورژوازی کی نظریں تھیں ـ سمّی ظلمت سے بچنے کے لئے دودا گورگیج کی پناہ میں آگئی ـ جس رات دودا کی شادی ہوئی اور وہ شبِ غسل میں مشغول تھا سمّی پر حملہ ہوگیا ـ دودا کی والدہ نے بیٹے کو طعنہ دیا کہ جو پناہ دیتے ہیں وہ دن چڑھے سوتے نہیں ہیں ـ

طعنہ جسے بلوچی میں شگان کہتے ہیں بلوچ سماج میں ایک مہلک ہتھیار ہوتا ہے ـ بلوچ شگان کا وار سہنے کی قوت سے فطرتاً محروم ہوتا ہے ـ دودا گورگیج شگان سن کر طاقت ور بورژوازی سے لڑنے نکل پڑتا ہے ـ جذباتی دودا لاش بن کر لوٹتا ہے ـ

دودا کا چھوٹا بھائی بالاچ گورگیج حالات و واقعات پر غور کرتا ہے ـ اسے بیوہ بھابھی، بیوہ سمّی اور بوڑھی ماں کا بھی خیال رکھنا ہے اور ظالموں کا قلع قمع بھی کرنا ہے ـ وہ جذبات کو عقل کی تھپکیاں دے کر سلاتا ہے ـ پھر شروع ہوتی ہے ایک اعصاب شکن طویل جنگ جسے بلوچ چھاپہ مار جنگوں کی ماں سمجھا جاتا ہے ـ

بالاچ چھپ کر وار کرتا اور موقع سے فرار ہوتا ـ وہ کب کہاں سے آکر حملہ کرے کچھ پتہ نہیں چلتا ـ بالاچ کی گوریلا تکنیک سے گھبرا کر دشمن کیمپ کی عورتیں رات کو آسمان پر اڑنے والی ہر شے کو بالاچ کے تیر سے تشبیہہ دیتی ہیں ـ طاقت ور اور ہر قسم کے اسلحے سے لیس دشمن بالاچ کو بزدلی کا طعنہ دے کر للکارتے ہیں کہ ہمت ہے تو سامنے آکر لڑو ـ بالاچ تاریخی جملہ کہتا ہے :

“وہ شیر ہی کیا جو لومڑی فطرت نہ ہو” ـ

صبر اور مستقل مزاجی کی دولت سے مالا مال بالاچ بالآخر ایک دن اپنے سے کئی گنا طاقت ور دشمن کو شکست دے دیتا ہے ـ نواب اکبر خان بگٹی نے غالباً اسی لئے بالاچ کو قومی ہیرو کا درجہ دے رکھا تھا ـ

ہمارے قد آور شاعر سید ہاشمی نے اس اساطیری داستان کے پس منظر کیا پتے کی بات کی ہے ـ

داں کہ پہ سمّیاں پیداک نہ بیت دودایے
پہ تئی دودایاں کدی بیر گریں بالاچ نہ بیت

یعنی؛ جب تک سمّی کے لئے جان لٹانے والا دودا نہ ہو تب تک دودا کا بدلہ لینے کے لئے کوئی بالاچ نہیں آنے والا ـ

زمانہ بدل چکا ہے ـ انداز بدل چکے ہیں ـ اب دودا کی خاطر بالاچ لڑتے لڑتے کبھی پہاڑوں میں تو کبھی تربت کی سڑکوں پر جان دے رہا ہے ـ اور سمّی ……. سمّی طویل اور اعصاب شکن جنگ کی قیادت کر رہی ہے ـ

دورِ حاضر کی سمّی کسی دودا سے پناہ کی طلب گار نہیں ہے ـ وہ خود ایک قائد ہے ـ ایک غیر متزلزل اور مستقل مزاج کردار ـ وہ نرم لہجے میں سخت باتیں کرتی ایک ایسی لڑکی ہے جس نے عقل پر جذبات کو کبھی حاوی نہ ہونے دیا ـ حالاں کہ وہ 14 سالوں سے شفیق باپ کی تلاش میں دکھوں کے تپتے ریگستان میں آبلہ پا گرم خاک چھان رہی ہیں ـ انہوں نے اپنے غصے، غم اور جذبات کو اپنی کم زوری بنانے کی بجائے طاقت کا روپ بخشا ہے ـ وہ سیتا ماتا نہیں جو رام کا منتظر ہو ـ وہ راون کی لنکا میں گھس کر اسے للکارنے والی جدید عہد کی سمّی ہیں ـ

مستقبل کا بلوچ یقیناً فخریہ کہے گا “سمّی ہماری قومی ہیروئن ہیں”ـ


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔