سلمان بلوچ کی جبری گمشدگی کی داستان
تحریر: لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کے شہر خضدار کے قلب میں واقع کھٹان کے رہائشی سلمان بلوچ جنہیں 13 نومبر 2022 کو شال کوئٹہ سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا، اس خبر سے ان کے گھر میں ایک ایسا سانحہ رونما ہوا جس نے اس خاندان کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ کیونکہ خاندان کے امنگیں اور خواب نوجوان سلمان سے وابستہ تھیں۔
سلمان، محمد جان کا بیٹا، محض ایک فرد نہیں تھا وہ اپنے خاندان کے دل کا دھڑکن تھا۔ ایک خوبصورت نوجوان، اپنے بوڑھے باپ، اپنی ماں کے خوابوں اور اپنی بہنوں کی خوشیوں کے لیے امید اور سہارے کا مجسمہ تھا۔ وہ خواب جو اس کی ماں نے اپنے بیٹے کے سر کو کامیابی اور کامرانی سے مزین دیکھنے کے لیے پروان چڑھائے تھے، اچانک چکنا چور ہو گئے، جس سے خاندان کی زندگی میں ایک انمٹ خلا پیدا ہو گیا۔
اپنی بہنوں کے اکلوتے بھائی سلمان صرف ایک بھائی ہی نہیں بلکہ طاقت کا ستون اور پورے گھرانے کے لیے خوشی کی کرن تھے۔ اس کی بہنوں نے ایک ایسے مستقبل کا تصور کیا تھا جہاں ان کا بھائی ان کی خوشیوں کو پورا کرنے اور ضرورت کے وقت رہنمائی کا ذریعہ بننے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ تاہم، قسمت نے ایک غیر متوقع موڑ لیا، بہنوں کو اپنے پیارے بھائی کی گمشدگی کا درد سہنے کے لئے چھوڑ دیا۔
بوڑھے باپ کے لیے، سلمان صرف ایک بیٹا نہیں بلکہ وہ ایک قابل اعتماد سپورٹ سسٹم تھا، مصیبت کے وقت طاقت کا ذریعہ تھا۔ سلمان کی اچانک گمشدگی نے نہ صرف خاندانی ڈھانچے میں بلکہ ان کے والد کی روزمرہ کی زندگی میں بھی ایک خلا چھوڑ دیا ہے، جو جذباتی اور عملی مدد کے لیے اپنے بیٹے کی موجودگی پر انحصار کرتے تھے۔
سلمان بلوچ کی جبری گمشدگی صرف ایک انفرادی سانحہ نہیں ہے۔ یہ ایک وسیع تر سماجی مسئلہ ہے، یہ بے شمار خاندانوں کو درپیش پریشانی اور مایوسی کو اجاگر کرتا ہے جو اپنے پیاروں کے ٹھکانے کی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔ نہ جانے سلمان کے گمشدہ ہونے کا درد اذیت اور انصاف کے حصول سے مایوسی خاندان پر سیاہ بادل کی طرح منڈلا رہی ہے۔
سلمان بلوچ کی کہانی جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو حل کرنے، انسانی حقوق کی وکالت کرنے اور متاثرہ افراد کے لیے انصاف کو یقینی بنانے کی فوری ضرورت ہے۔ اس کا کیس ایک واضح یاد دہانی ہے کہ ہر گمشدگی کے پیچھے ایک خاندان بکھر جاتا ہے، خواب ادھورے رہ جاتے ہیں، اور زندگی دنیا کی تلخ حقیقتوں سے دوچار ہوتی ہے۔
جیسا کہ ہم سلمان کی کہانی پر غور کرتے ہیں، معاشرے کو چاہیے جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھائیں، ہمیں جبری گمشدگیوں کے خلاف کھڑے ہونے، متاثرہ خاندانوں کے حقوق کی وکالت کرنے اور ایک ایسی دنیا کی تعمیر کرنا چاہیے، جہاں ظلم و جبر اور ناانصافی کا راج نہ ہوں، جہاں انسان آزاد ہوں اور امید کے سائے ختم نہ ہوں۔ اجتماعی شعور، ہمارے معاشرے میں انصاف اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد جاری رہنا چاہیے۔
بلوچ لانگ مارچ اور اسلام آباد دھرنے کے بعد ایک پریشان کن رجحان سامنے آیا ہے، ریاست جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ریلیوں میں شریک لاپتہ افراد کے لواحقین کے خلاف ایف آئی آر درج کر رہی ہے۔
خضدار سے لاپتہ ہونے والے سلمان بلوچ کی بہن سعدیہ بلوچ اور آصف اور راشد کی بہن اور کزن سائرہ بلوچ اور خاندان کی دیگر لڑکیوں کو دو الگ الگ ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔
یہ واقعات انتہائی تشویشناک ہیں کیونکہ جبری طور پر لاپتہ ہونے والے اپنے بھائی کو ڈھونڈنے والی ازیت و اجتماعی سزا کے شکار بہن کی مدد کرنے کے بجائے ریاست نے بہنوں کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آر) درج کرنے کا انتخاب کیا ہے۔ ان لوگوں کو خاموش کرنے کے لیے ایف آئی آرز کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
جو ریاست سے اپنے لاپتہ افراد کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے کی جرات کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف جبری لاپتہ افراد کے خاندانوں کی آوازیں دبائی جارہی ہیں بلکہ خوف کی فضا بھی پیدا کی جارہی ہے۔
جبری طور پر لاپتہ کئے گئے اپنے پیاروں کے بارے میں جواب مانگنے والوں کو خاموش کرانے کے لیے ایف آئی آر کو طور ہراسگی استعمال کرنے کے خطرناک رجحان کو فوری طور پر بند کیا جانا چاہیے، یہ عمل بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مذمت کی متقاضی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔