جبری گمشدہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی دین بلوچ نے کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے تحت منعقدہ قومی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ریاست کی اوقات یہ ہے کہ مظلوم خواتین کے احتجاج کو دبانے کیلئے کرایہ کے قاتلوں کا سہارا لیتی ہے۔ ہماری آواز کچلنے کیلئے ہر طریقہ استعمال کیا جارہا ہے۔ کیا بلوچوں کی نسل کشی کا خاتمہ، مظالم کا سلسلہ بند اور ان کو حقوق دینے کے مطالبات اتنے مشکل ہیں کہ وہ حل نہ ہوسکیں۔
انہوں نے کہا مقتدرہ کو سمجھنا ہوگا کہ عوام مزید جبر تشدد جبری گمشدگیوں کو برداشت نہیں کریں گے۔ ایسا نہیں ہوسکتا آپ لوگوں کو جبری لاپتہ کرو انسانی حقوق کی پامالیاں کرتے جاؤ زیر حراست بلوچ نوجوانوں کی لاشیں پھینکتے جاؤ اپنے ہی ملک کے آئین اور قانون کو بوٹوں تلے روندتے جاؤ ڈیتھ اسکواڈ کے خاتمے کے بجائے انھیں اسمبلیوں میں ہمارے نمائندہ بتا کر ہم پر مسلط کرو۔
انہوں نے کہاکہ گزشتہ 75 سالوں کے مظالم نے بلوچوں کو اس نہج پر پہنچایا ہے کہ اب تمہارے ظلم اور جبر اور مزید لاشیں اٹھانے سے ہم انکار کرتے ہیں۔ اب ہماری زندگیوں کا فیصلہ تم نہیں ہم خود کریں گے۔ مزاحمت ہی زندگی ہے مزاحمت ہی بقا ہے مزاحمت ہی شعور ہے۔