پاکستان انسانی حقوق کے کمیشن نے تونسہ شریف سے بلوچ یکجہتی کمیٹی اسلام آباد دھرنے کی حمایت میں ریلی کے شرکاء کو گرفتار کرنے کی مذمت کی ہے-
ایچ آر سی پی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایچ آر سی پی کو یہ جان کر شدید تشویش ہے کہ حکام نے تونسہ شریف میں ایک پُرامن ریلی کے کئی منتظمین اور شرکاء کو اُن کے گھروں سے اغوا کر لیا جن میں بی این پی کے رہنماء ذوالفقار بلوچ اور کارکنان رسول بخش اور اسلم بزدار بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا درحقیقت جبری گمشدگیوں کے خلاف حالیہ بلوچ احتجاج کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے نکلنے والی ریلی کو پولیس کے عتاب کا نشانہ بن جانا ظاہر کرتا ہے کہ پُرامن اجتماع کو کچلنے کی کھلے عام کوششیں جاری ہیں۔
ایچ آر سی پی ریلی کے منتظمین اور شرکاء کے اغواء کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے اور ریاست کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کو بزور طاقت یا ماورائے عدالت ہتھکنڈوں سے دبانے سے باز رہے۔
واضح رہے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے بلوچ نسل کشی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف دھرنے کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بدھ کے روز احتجاجی مظاہرے کی تیاری کے دوران تونسہ سے 40 سے زائد کارکنوں کو اغوا کر لیا گیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق تونسہ شریف سے ذوالفقار مگلانی، محمد اسلم، ماسٹر غلام رسول، شکیل بلوچ، کلیل احمد، سرفراز بلوچ، قاسم بلوچ، ریاض، صدام، شاہد، ظفر، نعیم، نصیب، کامران، جاوید، افشین سمیت کئی مظاہرین کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا ہے جن کے بارے میں تاحال کوئی معلومات نہیں ملی ہیں-
تونسہ گرفتاریوں پر بلوچ راج کے مرکزی ترجمان نے بیان کہا ہے کہ پنجاب پولیس کا تونسہ شریف میں بلوچ مظاہرین کو احتجاج کرنے سے پہلے گرفتار کرنا اظہار راۓ پر پابندی کی عکاسی ہے۔ پنجاب پولیس کا ڈیرہ جات میں بلوچ قوم کی طرف رویہ انتہائی متعصبانہ ہے۔ آج جب بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کال پر تونسہ شریف میں عوام احتجاج کے لیے اکٹھا ہو رہے تھے تو پولیس نے 40 سے زیادہ لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب پولیس کا رویہ بلوچ قوم کی طرف غلام اور آقا کی طرح ہے۔ اظہار راۓ ریاست میں ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی لانگ مارچ سے لے کر آج تک پنجاب پولیس مظاہرین پر درجن بھر ایف آی آر کر چکی ہے اور مختلف دوستوں کو گرفتار کرچکی ہے۔
تونسہ گرفتاریوں پر اسلام آباد بلوچ لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی ماہ رنگ بلوچ نے کہا جب کہ ہم جبری گمشدگیوں اور بلوچ نسل کشی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، ریاست اس پر توجہ دینے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کے بجائے جبری گمشدگی کی پالیسی کو تیز کر رہی ہے تونسہ سے متعدد افراد کو گرفتار کرکے لاپتہ کرنا اس بات کی گواہی ہے اب اگر ہم اقوام متحدہ نہیں تو کس سے اپیل کریں-