بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کے سینئر وائس چیئرمین بابل ملک بلوچ، وحدت بلوچستان کے صدر شکیل بلوچ، سیٹرل کمیٹی کے ممبر منصور ایم جے بلوچ نے کہا کہ ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا لیکن بجائے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے مطالبات کے ماننے اور سننے کے ریاستی ادارے انہیں مسلسل مختلف طریقوں سے ہراساں کرتے رہے ہیں یہاں تک کے مختلف صحافی بھی ٹاوٹ کے حیثیت سے دھرنا شرکاء، لواحقین و متاثرین کو دہشتگرد دکھانے کی ناکام کوشش کی یہ سب حربے استعمال کرنے و ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد اب انہی ریاستی اداروں نے قاتلوں کا ایک جنڈ اسلام اباد میں دھرنے کے مقابلے میں ایک اور دھرنا شروع کردیا ۔
بیان میں مزید کہا کے یہ وہ لوگ ہے جن کو بلوچستان کے لوگ قاتل اور ڈاکو کے نام سے جانتے ہیں ، گزشتہ کئی ادوار سے یہی لوگ لوگوں کو اغواء کرکے تاوان وصول کرتے ہیں ، ریاستی اداروں کے اشاروں پہ چلنے والے یہ افراد شہداء کے وارث نہیں بلکہ بلوچستان کے مجرم ہے۔
مزید کہا کہ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہے جنہوں نے حامد میر کے آنے پہ پریس کلب کو تھالے لگائے اور لاپتہ افراد کے مسئلے پہ کئی صحافیوں اور دانشوروں کو قتل کیا ۔
بیان میں کہا کے ہم عدلیہ سے آج مخاطب ہوکر یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے بچوں کے قتل پہ خاموشی ہے کوئی ایک یہ جسارت نہں کرتا کہ ان سے پوچھے اور انہیں بولے کے تمہیں عوام کو قتل کرنے کی لائسنس کس نے دی ہے ، اس دھرنے میں وہ لوگ بھی شامل ہے جو خود براہ راست بلوچستان میں چوری اور ریاست کے ایماء پہ لوگوں کو قتل کررہے ہیں لیکن ان کو پیغام دیتے ہیں کے تم قتل کرکے اور ڈرا دھمکا کر ہمیں ہمارے جائز حقوق سے دستبردار نہیں کرسکتے۔