ریاستی اداروں کی غیر سنجیدگی
ٹی بی پی اداریہ
انسداد بلوچ انسرجنسی کے لئے بنائے گئے پالیسیوں اور ریاستی جبر سے متاثر سینکڑوں خاندانوں کا دھرنا اسلام آباد پریس کلب کے سامنے جاری ہے، لیکن ریاستی ادارے جبری گمشدہ افراد کو بازیاب کرانے کے بجائے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے اور اُن افراد کے ذریعے جو بلوچستان میں سیاسی کارکنان کے جبری گمشدگی ؤ قتل و غارت میں ملوث ہیں، انہیں بلوچ لانگ مارچ کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔
بلوچستان کے بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ جو بلوچ سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی ؤ قتل، چوری ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان میں ملوث ہیں جِن کے خلاف بلوچستان کے عوام مسلسل سراپا احتجاج ہیں، انہیں ختم کرنے کے بجائے بلوچ قوم کے حقیقی آوازوں کو دبانے اور اُن کے خلاف محاذ بنانے کے لئے انہی کرداروں کو کھلی چھوٹ دی جاری ہے۔
بلوچ لانگ مارچ کے آغاز سے ہی پرُامن تحریک کو روکنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔ مسئلے کے حل کی جانب پیش قدمی نہ کرنے اور مزاکراتی عمل کے جامد ہونے سے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کے مطالبات پاکستان کے اپنے ہی آئین کے عین مطابق ہیں اور اُن مطالبات پر عمل کرنے سے مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے ۔
بلوچ لانگ مارچ صرف اسلام آباد تک محدود نہیں بلکہ بلوچستان کے مختلف شہروں سے تحریک کے حق میں ہزاروں لوگ نکل کر اُن کی حمایت کا اظہار کررہے ہیں اور عالمی دنیا میں بھی بلوچستان میں ہوئے جبر کے خاتمے کے لئے آواز اُٹھا رہے ہیں۔
اوچھے ہتھکنڈوں سے سلگتے مسائل اور جبرؤ ظلم کے خلاف اُٹھتے آوازوں کو دبانا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کے نگران حکومت کے وزرا بیان بازیوں کے بجائے لانگ مارچ کے منتظمین سے مزاکرات کرکے مسئلے کو حل کرنے کی جانب پیش قدمی کرسکتے ہے، لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستانی ادارے لاپتہ افراد و ڈیتھ اسکواڈز کو مسئلہ نہیں بلکہ پالیسی سمجھتی ہے، اس مائینڈ سیٹ کی وجہ سے، یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ یہ مسئلہ حل ہوسکے گا۔