دھرنا نہیں انقلاب ہے
تحریر: علی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
23 نومبر 2023 وہ دن جب ایک ہی ہفتے میں صرف ضلع کیچ میں پہ در پہ پانچ لوگوں کو جعلی مقابلوں میں قتل کردیا گیا تھا چار نوجوانوں کو ایک گاڑی میں بند کرکے گاڑی کو بارودی مواد سے اڑا دیا گیا پھر اس وحشی عمل پہ عوامی ردعمل نہ ہونے کے باعث سی ٹی ڈی نے بالاچ مولا بخش کو عدالتی ریمانڈ میں زیر حراست ہونے کے باوجود ایک جعلی مقابلے میں قتل کرکے اس کی لاش ورثاء کے حوالے کردیا، انہیں لگا کہ یہ بھی کچھ سوشل میڈیائی پوسٹوں کے ساتھ دفنا دیا جائے گا لیکن اگلے ہی روز بالاچ مولا بخش کی بہن نجمہ بلوچ نے اپنے لاڈلے بھائی کو دفنانے سے انکار کردیا نجمہ اپنی بھائی کے لاش کو تربت کے انقلابی اور بلوچ مزاحمتی قوم دوست سیاست کے نامور سیاستدان شہید فدا بلوچ کے نام سے منسوب تربت شہر کے مرکز میں قائم شہید فدا چوک پر رکھ کر دھرنے پر بیٹھ گئی، نجمہ نے اپنی بھائی کی لاش کو تربت سول کورٹ تک ریلی کی شکل میں پہنچایا کہ میرے بھائی کو اس عدالت نے سی ٹی ڈی کے حوالے کیا تھا اب عدالت بالاچ مولا بخش کے قتل میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کو سزا اور متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کرے۔
عدالت نے مقامی پولیس ایس ایچ او اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم جاری کیا لیکن ریاستی اداروں کے پشت پناہی میں ان کے لیے کام کرنے والی سی ٹی ڈی کے خلاف بلا کون ایف آئی ایف درج کرکے عسکری اسٹبلشمنٹ کی ناراضگی موڈ لینے کی ہمت کرتا لہذا ایف آئی آر درج نہیں ہوا۔
نجمہ نے اپنے بھائی کی لاش شہید فدا چوک پر رکھ کر ایف آئی آر کے اندراج تک دھرنے کا اعلان کردیا اس کے بعد تربت کے مقامی سیاسی و سماجی بالخصوص گلزار دوست وہاں پہنچ گئے اور دھرنے پر بیٹھ گئے دوسرے ہی دن نجمہ بلوچ کی آہ و پکار اور درد بھری چینخیں ویڈیو کی شکل میں بلوچ نوجوانوں کی موبائلوں تک آگ کی طرح پھیل گیا اور جب جب بلوچ بہنیں روہ رہی ہیں تھی تب تب بلوچ فرزندان وطن ان کی داد رسی کے لیے وہاں پہنچی ہیں بالکل اسی طرح اگلے روز چند افراد پر مشتمل وہ دھرنا ایک بڑے دھرنے میں تبدیل ہوگیا ۔
اس عوامی شرکت کو دیکھ کر مقامی انتظامیہ نے ڈی سی اور ضلعی ناظم پر مشتمل ٹیم مذاکرات کے لئے روانہ کیا ، لیکن مذاکرات ناکام ہوتے رہے کیونکہ انتظامیہ ملوث اہلکاروں کو بچانا چاہتی تھی اور مظاہرین انہیں ایف آئی آر میں نامزد کرنے پر بضد تھیں تو مذاکرات کا ناکام ہونا طے تھا پھر ان مذاکرات میں شامل ضلعی ناظم اور مشہور منشیات فروش ھوتمان نے دھمکی آمیز لہجے میں بانک صبعیہ بلوچ کو غیر مقامی کہہ کر مظاہرین اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کے تمام دروازے بند کردیئے ۔
مذاکرات کی ناکامی اور اس دھرنے میں بڑھتی عوامی شرکت نے اداروں کو پریشانی میں ڈالنا شروع کردیا تو انہوں نے اس احتجاج کو تقسیم کرنے کے لیے اپنی مقامی تنخواہ خور مولویوں سے فتوی جاری کروایا کہ چونکہ بالاچ مولا بخش زکری مسلک سے تعلق رکھتا تھا تو لہذا سنی مسلک کے لوگ اس کے نماز جنازہ میں شرکت نہ کریں
اس اعلان کے بعد جیسے تربت اور آس پاس کے لوگوں نے اس فتوے کو مذہب کی آڑ میں قومی تقسیم سمجھا اور بالاچ مولا بخش کے جنازے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کرکے اس دن مذہب کے نام پر بلوچ قوم کی تقسیم کی سازش کو ناکام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم الشان تحریک کا آغاز کردیا تھا۔
بالاچ مولا بخش کی تدفین کے بعد لواحقین نے اس احتجاج کو بلوچ نسل کشی کے خلاف تحریک کی شکل دینے کا اعلان کرتے ہوئے تربت سے شال پیدل لانگ مارچ کا اعلان کردیا اور پھر مارچ پنجگور ، آواران ، خضدار سے ہوتا ہوا شال کی جانب گامزن تھی، مذکورہ بالا تمام علاقوں میں مقامی آبادی بہت بڑی تعداد میں نکل کر اس لانگ کا استقبال کرتے رہے اور اپنا حصہ ڈالتے رہے اور مارچ کے گزر جانے کے بعد مقامی انتظامیہ استقبال کرنے والوں کو ایف آئی آر سمیت تمام طریقوں سے ہراساں کرتی رہی ، مارچ کے شرکاء جب تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے کوئٹہ شہر میں داخل ہوئیں تو انہیں یہاں بھی مقامی پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے مشکلات کا سامنا رہا لیکن مارچ میں شامل خاندانیں ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے شہر میں داخل ہوئیں اور دھرنے پر بیٹھ گئیں
چند دن کوئٹہ شہر میں گزارنے کے بعد جب ان کی وہاں کوئی شنوائی نہ ہوئی تو مارچ کے منتظمین اور اس میں شامل لاپتہ افراد کے لواحقین نے اس مارچ کو اسلام آباد کی طرف موڑنے کا فیصلہ کیا اور وہ براستہ کوہلو اور ڈیرہ غازی خان اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے کوہلو اور ڈی جی خان میں جس طرح لوگوں نے ان خاندانوں کو استقبال کیا وہ مناظر قابل دید تھے ان راستوں میں اسٹبلشمنٹ مقامی انتظامیہ کے ذریعے ان شرکاء کو ہر طرف اور ہر طریقے سے بدترین طریقے سے ہراس کررہی تھی ایف آئی آر درج ہو رہیں تھیں ٹرانسپورٹرز کو دھمکیاں دی جارہی تھیں یہ بہت مشکل اور تکلیف دہ حالات تھے ان ہی حالات میں ان خاندانوں کا حوصلہ بن کر مائک ہاتھوں تھامے بھری مجمے میں اداروں کو للکارتی ایک دھبلی پتھلی لڑکی نمایاں ہورہی تھی جو ہر احتجاج پر اپنے شعلہ بیانی سے شرکاء کو ان کی قومی فرائض یاد دلا رہی تھی اور وہ لڑکی ڈاکٹر ماہ رنگ تھی
ماہ رنگ اس مارچ کے چہرے کے طور پر نمودار ہوئیں اور جب تمام رکاوٹیں عبور کرکے یہ مارچ اسلام آباد کے حدود میں داخل ہوا تو وہاں اسلام آباد پولیس نے انہیں شہر میں داخل ہونے سے منع کردیا لیکن مارچ میں شامل پرامن خاندانوں نے اسلام آباد انتظامیہ کے مقاصد کو بھانپتے ہوئے مشتعل ہونے کے بجائے وہیں روڈ پر ٹٹھرتی سردی میں کھلے آسمان تلے دھرنا دے کر بیٹھ گئیں کیونکہ بلوچ لاپتہ افراد کا ایک دھرنا پہلے سے ہی اسلام آباد پریس کلب کے سامنے جاری تھا اور اس مارچ نے پریس کلب پہنچ کو اسی دھرنے میں ضم ہونا تھا
جب اسلام آباد پولیس نے دیکھا یہ مشتعل نہیں ہورہے ہیں تو انہوں نے ان خاندانوں کو پولیس تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں گرفتار کرلیا جن میں شیر خوار بچوں کے ساتھ ساتھ اسی پچاسی سال کے بزرگ تک شامل تھے
گرفتاری کے بعد ان خاندانوں کو توڑنے کے لئے مقامی تھانے میں رات بھر پلانٹڈ لوگوں کے ذریعے بدترین ذہنی ٹارچر کا سامنا رہا لیکن یہ خاندانیں تب بھی نہ ٹوٹے اور اسلام آباد پریس کلب پہنچنے پر بضد تھے
تمام ذہنی اور جسمانی تشدد کے باوجود جب مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہوئیں تو ان مظاہرین کو جبرا اسلام آباد بدر کرکے انہیں بلوچستان ڈی پورٹ کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں اور مقامی بس ٹرانسپورٹرز سے بسیں تک تھانے میں منگوائیں گئیں لیکن ان عورتوں بچوں کی بہادری اور استقامت کو سلام جو تمام رات اس وحشیانہ ریاستی تشدد کا مقابلہ کرتے رہے لڑتے رہے لیکن اپنے پیاروں کی بازیابی کے مطالبے سے دستبردار نہ ہوئیں ، اور بالآخر سوشل میڈیا پر ان مناظر کو دیکھ کر شدید شور پڑگیا اور انتظامیہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئی اس مارچ کو اس وقت تک ایک ناقابل یقین حد تک عوامی پذیرائی مل چکی تھی
مارچ کے شرکاء جب اسلام آباد پریس کلب پہنچے تو وہاں پہلے سے موجود دھرنے میں ضم ہوگئے اس بلوچ نسل کشی کے خلاف اور جبری گمشدگی کے شکار تمام لاپتہ افراد کو عدالتوں کے سامنے پیش کرنے اور ان جرائم میں ملوث اداروں اور افراد کے خلاف کاروائی جیسے مطالبات کے ساتھ دھرنے پر بیٹھ گئیں
ریاست نے ان خاندانوں کی داد رسی کے بجائے انہیں دہشتگرد کہنا شروع کردیا اور اپنے زرخرید تنخواہ داروں کو کبھی صحافی تو کبھی مذاکراتی ٹیم کے نام پر وہاں موجود مظاہرین کو مشتعل کرنے کے لیے بھیجتے رہے لیکن ان مظاہرین کے صبر اور برداشت نے ان کے اس منصوبے کو بھی ناکام کردیا پھر وہ ایک اور منصوبے کے ساتھ سامنے آئے اور وہ تھا نام نہاد (شہداء) فورم
نام نہاد “شہداء فورم” کے نام پر سراج رئیسانی کے بیٹے جمال رئیسانی کی سربراہی میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ڈیتھ اسکواڈ گروپس کے کارندوں کو بطور شہداء فیملی وہاں بیٹھایا گیا لیکن جب ان کارندوں کی تصاویر میڈیا میں آئیں تو ان کی کرتوتوں اور جرائم کی وہ وہ کارنامے سوشل میڈیا کی زینت بن گئیں کہ کچھ ہی دنوں بعد خود اپنے مطالبات خود قبول کرکے خود پریس کانفرنس کرکے خود دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرکے چلتے بنے
جب اسٹبلشمنٹ کو ہر طرف ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا تھا تو وہ اپنے مشہور زمانہ طریقہ واردات کو استعمال کرنے پر اتر آئی وہ تھی کردار کشی اسٹبلشمنٹ نے اپنی تمام ریاستی مشینری کو استعمال کرتے ہوئے سمی اور ماہ رنگ بلوچ کے خلاف بدترین کردار کشی مہم چلائی اور ان دو بہادر بلوچ بچیوں نے اس مہم کو بھی دلیر کے ساتھ سامنا کرکے اس کو بھی ناکام بنا دیا
بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء اپنے انہی مطالبات کے ساتھ اسی جزبےاور استقامت کے ساتھ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے شدید سردی میں کھلے آسمان تلے بیٹھے رہے اور بلوچستان سمیت ڈی جی خان اور کراچی میں آباد بلوچ قوم نے ان خاندانوں کے ساتھ اپنی وابستگی اور ان کو حوصلہ دینے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں نکل کر احتجاج کی۔
لیکن دوسری جانب ریاست کی ہٹ دھرمی مسلسل جاری رہی وہ کیمپ کے شرکاء سے بات چیت کرنے کے بجائے انہیں مسلسل مختلف طریقوں سے تنگ کرتی رہی، ان کے خلاف پروپیگنڈے کروائے گئے، مختلف الزامات لگائے گئے اور انہیں اسلام آباد چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، لاپتہ افراد کے لواحقین اسلام آباد سے جب آنسوؤں اور سسکیوں کے ساتھ اپنے وطن بلوچستان روانہ ہوئیں تو بلوچستان پہنچتے پہنچتے ان کے آنسوؤں کے قطرے عوامی سمندر کا شکل اختیار کرچکے تھے اور ان کی سسکیاں نعروں میں تبدیل ہوچکے تھے۔ شال میں ماہ رنگ، سمی بلوچ سمیت دھرنا کے شرکاء کا جو تاریخی استقبال کیا گیا ہے وہ نوشتہ دیوار ہے اور اب دھرنا انقلاب کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔