اسلامک اسٹیٹ گروپ نے جسے داعش بھی کہا جاتا ہے، جمعرات کو ایران کے شہر کرمان میں ہونے والے ان دو خودکش بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جو پاسداران انقلاب کے ایک اعلیٰ کمانڈر قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کی تقریب کے دوران ہوئے تھے۔
ان دھماکوں میں ایک سو کے قریب افراد ہلاک اور 280 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔
داعش کی سرگرمیوں اور نظریات پر نظر رکھنے والے ماہرین نے کہا ہے کہ یہ دہشت گرد گروپ ممکنہ طور پر غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے سبب پھیلنے والی افراتفری سے فائدہ اٹھانے کو توقع رکھتا ہے۔
اسلامک اسٹیٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے دو حملہ آوروں نے، جن کی شناخت اس نے عمر الموحید اور سیف اللہ المجاہد کے طور پر کی ہے، یہ حملے کیے۔
داعش نے اپنے دعوے میں کہا ہے کہ ان دونوں نے ان حملوں کے لیے دھماکہ خیز جیکٹیں استعمال کی تھیں۔
اے پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دھماکے کے بعد سڑک پر اسفالٹ کے ٹکڑے دیکھے گئے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دھماکہ خیز مواد میں بڑی تعداد میں چھوٹے چھوٹے تیز دھار کے ٹکڑے ڈالے گئے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ نقصان ہو سکے۔
داعش کے دعوے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کرمان کے خود کش دھماکے شدت پسندوں کے کس علاقائی گروپ کی جانب سے کیے گئے تھے۔
ایک امریکی تھنک ٹینک ’واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی‘ کے ایک سینئر رکن آرون وائی زیلن نے کہا ہے کہ ماضی کے برعکس تازہ ترین دعویٰ داعش سے منسلک اکاؤنٹ کے ذریعے سامنے آیا ہے۔
زیلن کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر اسلامک اسٹیٹ گروپ یہ توقع رکھتا ہے کہ ایران اسرائیل پر حملہ کرے گا جس سے اسے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکتا ہے۔
اس سے قبل داعش نے جون 2017 میں تہران میں پارلیمنٹ اور آیت اللہ روح اللہ خمینی کے مزار پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی جن میں کم ازکم 50 افراد ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ داعش گروپ ایران میں مزید دو حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا بھی دعویٰ کر چکا ہے۔
ایرانی حکام نے فوری طور پر اس دعوے کو تسلیم نہیں کیا اور ایران کا سرکاری میڈیا بالواسطہ طور پر اس حملے پر اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے ۔
جمعرات کو کرمان میں ایسے اسرائیلی پرچم بھی دیکھے گئے جن پر فارسی میں اسرائیل مردہ باد کے نعرے لکھے ہوئے تھے۔