خضدار میں صحافتی قحط ۔ نعیمہ زہری

440

‏خضدار میں صحافتی قحط
‏تحریر: نعیمہ زہری
دی بلوچستان پوسٹ

‏کہنے کو صحافت تو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے۔ لیکن مملکت خداداد میں بالعموم جبکہ بلوچستان میں بالخصوص یہ پیشہ حقیقتا اس درجے سے کوسوں دور ہے۔ کیونکہ یہاں پر اکثر صحافی اس پیشہ کے لئے جو تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے وہ ان بنیادی زینوں سے یکسر محروم ہیں۔

‏صحافت کیوں اور کسیے سر انجام دی جاتی ہے۔ ان بنیادی ضوابط سے ان کا دور تلک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے جو بھی اس پیشہ سے منسلک ہے انہوں نے اسے عوام کی آواز بنانے کے بجائے اسے شریف افراد کی زندگی کو داغ دار بناکر پس پردہ ذریعہ معاش بنایا ہے۔
‏دراصل ریاست کا چوتھا ستون کہلانے والا یہ پیشہ پوری دنیا میں عوام کے لئے آئینہ کے کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مملکت خداداد اور ہمارے صوبہ و دیگر اضلاع میں یہ آواز پہنچانے کے بجائے ان کی آواز دبانے اور توڑ موڑ کر پیش کرنے کی ذمہ داری سرانجام دے رہا ہیں۔

‏شومئی قسمت کہ اس پیشے میں ایسے لوگوں نے قدم رکھا ہے، جنہوں نے اس کی مطلوبہ ڈگری تو کیا زندگی میں سکول تک کا منہ نہیں دیکھا۔ لیکن وہ شہر خضدار میں اس مقدس پیشہ پر اس براجمان ہے جیسے انھوں نے آکسفورڈ سے صحافت کی ڈگری لی ہے۔

‏بلوچستان کے لوگ پچھلے کئی دہائیوں سے جس کرب سے گزر رہے ہیں اس کی بنیادی محرومیت میں اس پیشہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

‏صحافت لوگوں کی مسائل کو ریاست کے دہلیز تک پہنچانے کا ذریعہ ہوتا ہے جب یہ اس پیشہ سے منسلک قلم کار کی سیاہی ان کی آواز لکھنے کے بجائے ڈالر کی آکسیجن سے بھر جاتی ہو تو عوامی مسائل ایک ایسے نقطے پر پہنچ جاتے ہیں جدھر سے واپسی کا کوئی راہ نہیں ہوتا۔
‏پوری دنیا میں اس پیشے میں آنے کے لئے ڈگری کے ساتھ کچھ اخلاقی اصول و ضوابط بھی رکھے جاتے ہیں تاکہ جو بھی اس پیشہ کا قلم کار بننا چاہیں وہ بلاغرض و بلا تفریق سب کی آواز بنیں گے۔

‏شہر خضدار میں ریڈیو ساز، ٹیلر ماسٹر، مذہبی ملا، دھوبی اور مستری لوگ دروغ گوئی سیکھ کر ، جنسی مزکر مونث سے لاعلم لوگ مائیک اٹھاکر شہر کی پریس کلب پر دو دہائیوں سے قابض ہیں اور جو اس پیشہ کے اصول و ضوابط پر پورا اترتے ہیں انھیں یہی سابقہ ریڈیو ساز و موجودہ قلم فروش پریس کلب کے سامنے سے گزرنے بھی نہیں دیتے کیونکہ ریاستی گماشتوں نے عوام کی حقیقی مظلومیت کی داستان اور ان کی آواز بالا حکام اور پوری دنیا تک پہنچانے سے روکنے کے لئے ان کی پشت پر اپنا خون آلود ہاتھ رکھا ہے۔

‏اگر بلوچستان میں آزاد و پیشہ ور صحافی وجود رکھتے تو لوگ دن دہاڑے گھروں سے چوراہوں سے بالکل بھی غائب نہیں ہوتے۔

‏دراصل یہ بازاری صحافی مظلوموں کی آواز بننے کے بجائے ریاستی آلہ کاروں کے لئے اپنی بکی ہوئی قلم استعمال کرتے ہیں۔

‏اگر ہم ایک نظر قلم کی تقدس پر ڈالیں تو جس قلم سے مذاہب کی مقدس کتابیں لکھی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے شہر میں وہ قلم بددیانت، ضمیر فروش اور ڈالر فروشوں کے ہاتھ دے دی گئی تاکہ بلوچ قوم اس اکیسویں صدی میں بھی پتھر کے زمانے کی جیسی زندگی گزاریں۔

‏آج کل بلوچستان بالعموم و بالخصوص خضدار میں صحافت کی جو قحط ہے اس کی بنیادی وجہ ہی غیر وابستہ لوگوں کا اس مقدس پیشہ پر قبضہ ہے۔

‏بلوچستان کے لوگ بھلے بھوک و افلاس،سیلاب و زلزلہ اور وبائی بیماریوں سے مر جائیں لیکن ان کی قلم کی سیاہی اس وقت تک سیاہی نہیں گرائیگی جب تک ریاستی آلہ کاروں کی جانب سے اجازت نامہ نہیں ملتی ہیں۔

‏جب تک شہر ناپرسان پر ایسے قلم فروش براجمان ہونگے عوام کی حقیقی آواز پوری دنیا تک کبھی بھی نہیں پہنچ سکے گی۔

‏ان قلم فروشوں کی بیخ کنی کرنے کے لئے خضدار کی عوام کو میدان میں نکلنا ہوگا تبھی ان خضدار پریس کلب اور ریاستی گماشتوں سے عوام چھٹکارا پا سکے گی اور اس پیشہ کے حقدار اس میدان میں آکر ہی ان داد رسی کرکے پوری دنیا تک بلا غرض و تما کے ان کی آواز پہنچائیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔