خاردار تاروں کے حصارمیں ’’کانفرنس‘‘ اور بلوچ مارچ کی واپسی ۔ رامین بلوچ

221

خاردار تاروں کے حصارمیں ’’کانفرنس‘‘ اور بلوچ مارچ کی واپسی
تحریر: رامین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

ایک مارکسی دانشور کا یہ جملہ تاریخ کی کسوٹی پر سچ ثابت ہوتاہے کہ’’ ریاست جتنی کھوکھلی ہوتی ہے اتنی ہی جابر ہوتی ہے ‘‘ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام گزشتہ دو مہینوں سے امپرلسٹ کے دارالخلافہ میں بلوچ جبری گمشدگیوں، فیک انکاوئنٹرز ،بلوچستان میں ریاست کے پرائیوٹ ملیشیا ’’ڈیتھ اسکواڈ کو غیر فعال کرنے اور مجموعی طور پر بلوچ نسل کشی کے خلاف کے ایک احتجاجی تحریک جاری تھی، جسے مسلمہ طور پرپاکستانی ریاست ان کے عدلیہ میڈیا سوکالڈ صحافت، پارلیمنٹ اور بلوچ مخالف مروجہ ریاستی دشمنیوں کو تسلیم کرتے ختم کیا گیااس کے ساتھ ہی تحریک کے پانچویں فیز کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔ یہ تحریک جس میں اکثریت میں بلوچ خواتین نوجوان اور سن رسیدہ افراد شامل تھے جو پندرہ سو کلومیٹر طویل لانگ مارچ کی شکل میں اسلام آباد پہنچ کرایک ’’دھرنا کیمپ‘‘ کی صورت میں پر امن احتجاج پرگزشتہ دو مہینہ سے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس احتجاجی تحریک کو بلوچ خواتین ماہ رنگ بلوچ ،سمی دین بلوچ، شاجی صبغت اللہ بلوچ اورسیماء بلوچ لیڈ کررہے تھے ۔جو بلوچستان میں ریاستی جنگی جرائم کے خلاف ایک واضع ’’چارٹرآف ڈیمانڈ‘‘ کو لے کر’’ بلوچستان بیانیہ ‘‘سے عالمی دنیا کو آگاہ کرتے ہوئے بلوچ نسل کشی کا مقدمہ لڑرہے تھے۔ جس میں ان کی آواز کو نہ صرف عالمی سطح پر نمایاں پذیرائی ملی۔ بلکہ خطہ کے دیگر مظلوم اور مقبوضہ اقوام کے تحریکوں کے ساتھ نظریاتی جڑت کاایک بہترین موقع ملا۔اور دوسری طرف پاکستان ریاست کا بلوچ دشمنانہ کردار پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگیا۔

اس تحریک نے پاکستانی ریاست کے ماتھے پرجو انمٹ داغ چھوڑے اگرصدیوں کے سوئے ہوئے گلیشیئر مائع بن کر ایک سمندر بن جائے تووہ اپنی بدنماچہرہ سے یہ داغ نہیں مٹاسکتا۔یہ تحریک تاریخ کا وہ باب ہے جس میں ریاست نے ایک پر امن سیاسی احتجاج کو سبوتاژکرکے اپنی تمام انگلیاں اور ستون بری طرح جلا ڈالی ہے۔ اس تحریک کے حاصلات، محرکات، اور اثرات ،بلوچ مستقبل کے یقین کو اور مضبوط کرکے جرائت ،حوصلہ اور نئی شکتی دی ہے۔ اور یہ ان بلوچ پارلیمانی اشرافیہ کے لئے ایک نشان عبرت ہے جو بھائی بھائی کا نعرہ دیکر پچھلے کئی دہائیوں سے بلوچ قوم کو حقوق کا ’’لوری‘‘ نمادلاسہ دے کر ان کا سیاسی قومی و نظریاتی استحصال کررہے ہیں۔

اب واضح ہوگیا کہ قبضہ گیر انسانی روح اور احساسات سے بلکل مبرا ہوتاہے۔ یہ جس جمہوریت کی بات کرتاہے وہ اس کا رکھیل ہے۔ جو وحشیانہ غیرانسانی اور ناانصافی پر مبنی ایک نظام ہے ۔ہم بارہا کہ چکے ہیں کالونائزر کے ہاں کوئی جمہوریت و انسانیت نہیں ہوتا،یہ محض ڈھکوسلہ ہوتاہے ۔جس کے زریعہ عالمی و علاقائی رائے عامہ کو گمراہ کیاجاتاہے۔ یہ کھبی بھی اور کسی بھی موقع پر اپنی نوآبادیاتی ذہن کی نفاست و فرعونیت سے نکلنے کو قطعی طور پر تیار نہیں ہوتے۔ یہ بلوچ تحریک کا رسد ہے کہ آج پاکستانی ریاست کا غیر انسانی اور بلوچ دشمن ریاستی رویہ دنیا اور تمام مظلوم اقوام کی نظروں میں آچکاہے۔ قابض ریاست کی جانب سے کسی متوقع مثبت پیش رفت کا شروع سے کوئی امید نہیں،یہ اتنی مہذب نہیں کہ وہ کسی اخلاقی جرائت کا مظاہرہ کریں۔ یا اپنی بدنامی کے ڈر سے پیش رفت کے کسی مقام کا چنائو کرے۔ شروع ہی دن سے اس احتجاجی تحریک کو دبانے اور کمزور کرنے کے لے مختلف حربوں کا سہارا لیا گیا۔ جس میں ماہ رنگ بلوچ ،سمی دین اور تحریک سے جڑےجبری گمشدگی کے شکار بلوچ فرزندوں کے لواحقین پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے۔ کردار کشیاں کرتے ہو ئے بلوچ کے اس سچ کا سامنا کرنے سے نہ صرف گریز کیا گیا ،بلکہ مجموعی طور پر تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لئے ریاست کے آڑھتی دلال نمائندہ حکمران مجرمانہ بیانیہ کے ساتھ بلوچستان میںریاستی اندھا دھند نسل کشی اور بے رحمانہ قتل عام کے جرائم کو چھپانے کی ہر ممکن مکروہ ہتکھنڈے استعمال کئے ۔اوراس تحریک کا نکتہ آغاز جوان ڈیتھ سکواڈ کے خلاف شروع ہوئی تھی انہیں ریاستی بندوبست میں اسلام آباد لاکر بلوچ قومی تحریک کے خلاف گھنائونے طور پر ایک احتجاجی کیمپ میں بھٹاکر مجرمانہ بیانیہ کے ساتھ سبک، گری ہوئی غیر سیاسی اورغیر ریاستی حرکتیں کی گئی۔

لیکن اس احتجاجی تحریک کی دلیرانہ قوت عزم و حوصلہ کے سامنے ان کا بھیانک کردار تاش کی پتوں کی طرح جلد ہی بکھر گیا ۔اس مجموعی صورتحال اور تناظر میں ریاست اور ان کے آلہ کار کاسہ لیس اپنی کل مشینری کے ساتھ ناکام ہوگئے ۔ان کی بوکھلاہٹ، شکست خوردگی اوراعصابی و نفسیاتی ناکامی کا اندازہ انوار الحق کاکڑ اور جان اچکزئی کے بیانات اور پریس کانفرنسز میں نمایاں رہی۔ جو منافقت بے ایمانی اور بہانہ سازی کے زریعہ لمحہ بھر شرمندہ ہونے کے بجائے ریاست کی خونی کھلواڑاور ننگی جارحیت کی جھوٹے وکالت کی ۔لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستانی ریاست بلوچ کا مجرم ہے۔ اور یہ فرق ، فاصلے اور تضاد ہے۔ اسے کسی پارلیمنٹ یا نام نہاد آئینی و قانونی شعبدہ بازوںسے ٹالا نہیں جاسکتا اس کا فیصلہ اب بلوچ سرزمین پر ہوگا اورہر گلی کوچہ جھونپڑیوں راستوں اور بلوچ عوامی اجتماعوں میں ہوگایہ واپسی ناکامی نہیں بلکہ قابض ریاست کے لئے گورکن ثابت ہوگی ۔

ہندوستان میں آزادی کی تحریک کو کچلنے اور جلیانہ والاباغ میں پر امن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے جنرل اوڈوائر نے جو موت کا ناچ نچایا تھا۔ اس نے بھی اس کی زمہ داری لی تھی کہ دس منٹ میں 1650 رائونڈ فائر کئے گئے، اور فائر اس وقت بند ہوا جب گولیاں ختم ہوگئی تھی۔ یہاں میرا مقصد جنرل اوڈوائر کی تعریف کرنا مقصود نہیں ۔بلکہ وہ ہزاروں ہندوستانیوں کے قاتل اور جنگی مجرم ہے ۔جلیانہ والا باغ کے ’’وزیٹر بکس‘‘ میں انگریزوں کے لکھے گئے ایسے کئی تاثرات درج ہیں۔جس میں انہوں نے اس بربریت کا مذمت کرکے اپنے یورپین ہونے پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے اس ظلم کی کفارہ اداکرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اس پر ندامت محسوس کی ہے ،کہ ہم قاتلوں کے نسل سے ہیں۔ اور اس پر وہ معذرت بھی کرتے ہیں۔
بعد میں ایک ہندوستانی نوجوان جس کی زندگی ایک یتیم خانے میں گزری تھی۔ جس نے جلیانہ والا باغ کے بربریت کو اپنے آنکھوں دیکھا مشاہدہ کیا تھا۔ اس نے اس ظلم اور بے عزتی کا بدلہ لینے کے لئے انگلستان جاکر جنرل اوڈوائرپر گولیاں چلائی۔ اسے جب گرفتار کرکے عدالت لایا گیا تو اس نے بیان ریکارڈ کروایا کہ مائیکل اوڈوائیر اسی لائق تھا۔ مجھے مرنے کی پرواہ نہیں، میں اپنے ملک کے لئے جان دے رہاہوں ۔ تاریخ یہاں بھی اپنے آپ کو دہرا سکتی ہیں۔ اس کیمپ میں بلوچوں کی چھوتی نسل کے ایسے بچے تھے۔ جن کی مائوں کی تحقیر کی گئی گئے ۔جو نہتے اور خالی ہاتھ تھے۔ مدافعت کے لئے ان کے ہاتھ میں کوئی ڈنڈا یا آتشی اسلحہ نہیں تھا ۔ بلکہ ان کے پاس ان کے لواحقین کی تصویریں گمشدہ افراد کی روئیداد اوران کا موقف تھا۔ جنہوں نے ریاست کی سفاکیت کو انتہائی قریب سے دیکھا ان سے انتقام کا جذبہ کوئی طاقت کوئی اصلاحات اور کوئی ریاستی مکرو فریب نہیں چھین سکتا۔

مقصد صرف یہ ہے کہ جس ڈھٹائی اور مجرمانہ طریقہ سے یہ ریاست اور اس کے ادارے جنرل جج بیورو کریٹ صحافی سیاست دان بلوچستان میں اپنے جنگی جرائم چھپانے کے لئے جو مہا جھوٹ بیانیہ کے ساتھ ایک صفحہ پر ہیں ۔ اس انداز میں کسی بھی حملہ آوراور جنرل ڈائر نے بھی جھوٹ نہیں بولا تھا۔

انوار الحق کاکڑ سے لے کر جان اچکزئی تک اس احتجاجی تحریک یا مجموعی بلوچ کاز کے خلاف اب تک جو پروپیگنڈہ کیا جارہاہے۔ یہ ریاست کے مافیائی کردار اور ان کے خونخوار میراث سے پردہ ہٹانے کے لئے کافی ہے۔ جو اس تاریخی سچ کو بار بار دہراتی ہے، کہ ہندوستان کی خونریز تقسیم فطری عمل نہیں تھا، اور نہ ہی پاکستانی ریاست اپنی وجود میں کوئی فطری ریاست ہے ۔بلکہ یہ برطانیہ ڈپلومیسی کی رہیں منت اور حادثاتی نتیجہ ہے۔ جسے برطانیہ سامراج نے اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے پیش نظر ایک جائے پناہ کے طور پر بنائی تھی ۔کیونکہ برطانیہ کے اپنی نوآبادیات پر براہ راست گرفت کمزرور ہوگئی تھی ۔دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ خطے میں جاری آزادی کی تحریکوں کی وجہ سے عسکری معاشی اور مالی طور پر شدید کمزور ہوگئی تھی۔ اور اس کی سپر پاور سامراجانہ حیثیت اور اجارہ داری بلکل ختم ہوکر رہ گیا تھا۔

وہ ہندوستان اور بلوچستان میں اپنی قبضہ سے دستبردار ہوکر اپنی پیوندہ زدہ نوآبادیاتی نظام کوتسلسل دینے کے لئے پاکستانی ریاست کی شکل میں ایک مافیا تشکیل دی۔ تاکہ وہ اس خطے میں کسی نہ کسی طرح اپنی بلواسطہ عمل داری برقرار رکھ سکے، لیکن بعد میں وہ خود اتنے کمزور ہوگئے کہ وہ پاکستان کو کسی طرح مالی یا فوجی مدد نہیں کرسکتا تھا۔ جو اس مافیا کا مستقل پیٹ پال سکے۔ جس کے بعد پاکستانی ریاست اپنی معاشی و فوجی ایندھن کو چلانے کے لئے وسائل سے مالامال اور قدرتی طور پر امیر سرزمین بلوچستان پر جبری طور پر قبضہ کیا ۔لیکن اسے بلاتاخیر بلوچ تحریک آزادی اور بلوچ ردعمل کا شدید سامنا ہوا ۔اور وہ اس دبائو کے پیش نظر عالمی کاسہ لیسی میں امریکی پراکسی جنگوں کو اپنے سر لے کر کرائے کے لڑائیوں سے منافع خوری شروع کی۔ اور وہ عالمی مالیاتی اداروں سے قرض اور جنگی منافع خوری کے مد میں ملنے والے آمدن اور فوجی وسائل سے بلوچ تحریک آزادی کو کچلنے کی ہر ممکن ناکام کوشش کرتے ہوئے آج ایک بحران اور عالمی تنہائی کے کرب سے گزر تے ہوئے ایک دفعہ پھر چینی سامراج کے کاسہ لیسی میں بلوچ تحریک کو دبانے کے لئے بے پناہ جنگی جرائم کا مرتکب ہے۔
آج دنیا میں اس کی حیثیت سامراجی کالونی کے سوا کچھ نہیں۔تاریخ عالم اس ریاست کی تشکیل کو برطانوی سامراج کی سنگین جرائم کے طور پر یاد کرتاہے۔

محمد علی جناح جسے بانی پاکستان کہاجاتاہے۔ ان کا نام 1942 سے لے کر 1947تک تاریخ کے ارد گرد گھومتاہے تاریخ کے طالب علم اس سے واقف حال ہے کہ وہ جس ’’دوقومی نظریہ‘‘ کی بات کرکے مسلم قومیت کا جو بے بنیاد جواز پیش کررہاتھا۔ جوازخود مسلمان نہیں تھا اور نہ ہی کسی تحریک آزادی کا راہنماء یا ہیرو تھا۔ وہ برطانیہ سامراج کا ایک ایجنٹ اور حلیف اور ہندوستان کی آزادی کا کٹر دشمن تھا۔جسے برطانوی سامراج نے رخصتی تحفہ اور سامراجی دلالی کے طور پر ہندوستانی سرزمیں کی خونی تقسیم کے نتیجہ کے طور پر پنجاب اور بنگال کے زمین پر پاکستانی نامی ایک غیر فطری ریاست بنا کے دیا۔ لیکن بعد میں بنگالیوں نے طویل جدوجہد کے زریعہ اس کے نوے ہزارفوجیوں کے شرمناک گرفتاری کو تاریخ کا میوزیم بناکر اس سے آزادی حاصل کرلی۔

اس تاریخی تمہید اور مختصرامصنوعی ریاست پاکستان کی حقیقت آشکار کرنے کے بعد اپنی اصل موضوع پہ آتے ہیں۔ کہ گزشتہ دنوں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام خطے کے تمام مظلوم اقوام کی نمائندگی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتما م کیا گیا تھا ۔جس میں تمام مظلوم اقوام کو قیادت کو نمائندگی کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ لیکن ریاست کی بندوبستی انتظامیہ اور نوآبادیاتی پولیس نے مظلوم اقوام کی اس اجتماع کو سبوتاژ کر نے کے لئے جو رکاوٹیں پیدا کی۔ اور جس طرح کی بد نظمی پیدا کرنے کی کوشش کی، وہ اس ریاست کے تاریخ کا شرمناک باب ہے۔

سیمینار کے منتظمین کو ہراساں کیا گیا ،شرکاء اور مقررین کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ سپیکر کرسیاں میزیں اور دیگر ضروری سامان ضبط کرلئے گئے۔ دھرنے کے ارد گرد خار دارتاریں بچھائی گئی۔ لیکن اس کے باوجود منتظمین نے درکار وسائل کے بغیر کامیابی کے ساتھ اس پروگرام کومنطقی انجام تک پہنچا یا ۔اس تمام تر احتجاجی دھرنے سے لے کر ’’کانفرنس ‘‘ کے انعقادتک ریاستی میڈیا نے یکطرفہ ریاستی خبروں کو بریک کرتا نظر آتا رہا۔بلوچ کے لئے نہ صرف اسلام آباد نوگو ایریا رہا ۔بلکہ ریاست کے مین سٹریم میڈیا میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں رہا ۔بلوچ سے جڑے خبروں پر تو شروع سے غیر اعلانیہ سنسر شپ اور پابندی ہے۔ لیکن ریاستی میڈیا جو نام نہاد آزادی صحافت کے علمبردار بنے پھرتے ہیں انہیں پنجاب کے کسی ایکٹر کی شادی کا جوڑا تو نظر آتا ہے، لیکن بلوچ کا ٹراما نظر نہیں آتا۔

وہ صحافت کے نام پر ایک بدنما داغ ہے۔ ریاستی میڈیا ثابت کرچکاہے کہ وہ کمرشل انٹر برائزر ہے۔ میڈیا مالکان جنہیں صحافت سے دلچسپی نہیں بلکہ پیسے اور دلالی سے ان کی دکان چلتی ہیں۔اس میڈیا منڈی میں صحافی اور اینکر پرسن سب بکائو مال ہیں ۔جنہیں صحافت جیسے مقدس پیشہ سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ وہ صرف پیسہ اور ریٹنگ کی چکر میں ہیں۔ بلوچ بارے میڈیا بلیک آئوٹ تو شروع سے ہی ہے۔ جب دیگر انسان دوست ممالک بلوچ بارے خبروں کو ٹیلی کاسٹ کرتے ہیں۔تو پھر ریاست اور ان کے کرائے کے اینکر پرسنز کی چیخیں نکل جاتی ہے کہ یہ بلوچ جہد کار بیرونی ایجنٹ ہے یہ فنڈڈ ہے۔ انہیں عالمی میڈیا کوریج کرتی ہیں۔

نوآبادیاتی میڈیا سے بلوچ کو کوئی توقع نہیں بلکہ یہ بھی اس قابض ریاست کا ایک اہم پلر ہے۔ یہ بلوچستان میں ریاست کے جنگی جرائم کے خبریں کھبی بھی رپورٹ کرنے سے قاصر ہے ۔اندازہ لگایئے جب ریاستی میڈیا اتنی دبائو اور گراوٹ کا شکارہے کہ وہ اسلام پریس کلب کے عین وسط میں ایک ریفرنس یا احتجاج کو رپورٹ نہیں کرسکتا تو وہ پھر ہزاروں میل بلوچستان میں ایک مسخ چھلنی لاش اور اس صدمہ کو کیسے رپورٹ کرسکے گا ۔یہ صحافت نہیں دکانداری ہے۔ یہ صحافت کے بین الاقوامی میعار کے چہرہ نہیں بلکہ ریاست کے نمک زدہ کاسہ لیس ہے۔

حیرت ہوتی ہے کہ ایک صحافی صحافت کے روپ میں ریاست کا آلہ کار بن سکتاہے۔ تو وہ مزدور کی بہروپ میں ریاست کا آلہ کار نہیں بن سکتا۔ ریاست کے بہرو پیا کردار کے یہ وہ چہرے ہیں۔ جو خود کو صحافی مزدور اینکر پرسن اور نام نہاد دانشور وں کے چہرے میں چھپالیتے ہیں۔ اٹلی کے ایک دانشور گرامچی نے ایک سو آٹھ سال پہلے یہ شاندار جملہ ان ریاست نوازصحافیوں کے حوالہ سے کہاتھاکہ’’ سامراجی میڈیا کا انسانی زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ آخری تجزیہ میں ریاست کے پالے ہوئے کردار اور ترجمان ہیں ‘‘۔

قابض ریاست کی بوکھلاہٹ اور اس کی جابرانہ پن یہ ثابت کرچکاہے کہ یہ کوئی ریاست نہیں بلکہ ایک مافیا ہے ۔جسے ریاست کاٹائٹل دیا گیا
ہے۔ جہاں اظہار رائے کی آزادی نہیں جہاں احتجاجی عمل پر کرفیو کا سمان ہے ۔ کریک ڈائون ہے۔ بولنے پر پابندی ہے۔ جہاں لکھنے پر قدغن ہے ۔جہاں سیاسی اور جمہوری آزادیوں کے جدوجہد پرپہرے ہیں۔جہاں ایک مظلوم کی درد اور کسک کے اظہارپر خار دار تاروں کے جال بچھائے جاتے ہیں۔جہاں ہر طرح کے انسانی آزادی کو سلب کیا جاتاہے ۔جہاں سارے انسانی حقوق معطل کئے جاتے ہیں ۔

نوآبادیاتی ذہنیت کی ایک چھوٹی جھلک کا اندازہ آپ کرسکتے ہیں۔کہ کل جو مظلوم اقوام کی کانفرنس ہوئی اس کو ریاستی میڈیاکی جانب سے
کوریج نہیں کی گئی ۔ اس کے بارے میں ایک معمولی ٹیکر چلانے کی جرائت نہیں کی گئی ۔اس کا واضح اظہار سلام آباد کے پریس کلب کے جانب سے ایک اعلامیہ ہے ۔جو پاکستانی صحافت کے مکروہ کردار کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے ۔جس سے ظاہر ہوتاہے کہ پاکستان میں صحافت ایک دھندہ آمدن کا زریعہ اور کاروبار ہے۔ یہ کھلی حقیقت ہے پاکستان مقبوضہ اقوام کی قید خانہ ہے یہ دنیا میں واحد ریاست ہے جہاں خار داروں تاروں کے حصار شدید بندشوں میں ممکنہ علمی و سیاسی مکالمہ کی جاسکتی ہو ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔