لبنان کے ملیشیا گروپ حزب اللہ نے ہفتے کو اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کیا ہے جب کہ امریکہ کے وزیرِ خارجہ نے ترکیہ میں غزہ جنگ کو خطے میں پھیلنے سے روکنے پر زور دیا ہے۔
حزب اللہ نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے اسرائیل کے ایک فوجی اڈے پر 60 راکٹ داغے ہیں جو حماس کے رہنما صالح العاروری کے قتل کا ابتدائی ردِعمل ہے۔
العاروری حماس کے ڈپٹی سیاسی رہنما تھے جنہیں دو جنوری کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ نظریاتی طور پر حماس کے قریب سمجھی جانے والی حزب اللہ نے اس ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔
تین ماہ سے جاری اسرائیل اور حماس کی جنگ کے دوران پیش آنے والے اس واقعے کے حوالے سے حزب اللہ کا الزام ہے کہ العاروری کے قتل کا ذمہ دار اسرائیل ہے جب کہ تل ابیب نے اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر خاموش نہیں رہ سکتے کیوں کہ خاموش رہنے کی قیمت ردِعمل سے جڑے خطرات سے کہیں زیادہ ہے۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق حزب اللہ کے حملے کے جواب میں اسرائیلی فوج کے مطابق لبنان میں ہفتے کو عسکری کارروائی کی گئی۔
جنگ کے خطے میں پھیلنے کو روکنے کے لیے بلنکن کا دورہ
دریں اثنا امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے ہفتے کو ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان سے استنبول میں ملاقات کے دوران خطے کی صورت حال پر بات چیت کی ہے۔
بلنکن کے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے تازہ ترین دورے کا مقصد اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کو سفارتی کوششوں کے ذریعے خطے میں وسیع تنازع کی شکل اختیار کرنے سے روکنا ہے۔
وہ اس دورے میں اسرائیل، مغربی کنارے، یونان، اردن، قطر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور مصر میں حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔ سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے شروع ہونے والی جنگ کے دوران بلنکن کا یہ خطے کا چوتھا دورہ ہے۔
ان کی سفارتی کوششوں کا مقصد جنگ کا غزہ سے مغربی کنارے، لبنان اور بحیرۂ احمر میں تجارتی جہازوں کی گزرگاہوں تک پھیلنے سے روکنا ہے۔
غزہ میں جاری جنگ کے دوران مشرق وسطیٰ کا خطہ کشیدگی کے ایک پر خطر موڑ پر ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق بلنکن اپنے دورے میں غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد میں اضافے کے امریکی مطالبے کو دہرائیں گے۔
اقوامِ متحدہ کا جنگ بندی کا مطالبہ
اقوامِ متحدہ کے شعبہ امدادی اُمور کے رابطہ کار مارٹن گرفتھس نے کہا ہے کہ تین ماہ سے جاری جنگ کے باعث غزہ کی محصور پٹی رہنے کے قابل نہیں رہی اور ان کے کارکنوں کو 20 لاکھ سے زائد لوگوں کی مدد کے لیے ایک ‘ناممکن مشن’ کا سامنا ہے۔
ایک بیان میں گرفتھس نے کہا کہ “اس جنگ کو کبھی بھی نہیں ہونا چاہیے تھا اور اب اسے ختم ہو جانا چاہیے۔”
جنگ بندی کے مطالبے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا یہ نہ صرف غزہ بلکہ اس کے ہمسایوں اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی یہ بہت ضرروی ہے۔
غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ
اسرائیل کے جنوبی علاقوں میں حماس کے سات اکتوبر کو ہونے والے حملے سے شروع ہونے والی جنگ میں اسرائیلی حکام کے مطابق تقریباً 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
حماس کے جنگجوؤں نے اس دوران تقریباً 240 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے زیادہ تر خواتین اور بچوں کو ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران رہا کر دیا گیا تھا جب کہ 130 مغوی اب بھی غزہ میں ہیں۔
اسرائیل نے ہفتے کی صبح جنوبی غزہ کے شہروں رفح اور خان یونس پر حملے کیے۔
لاکھوں فلسطینیوں نے پناہ حاصل کرنے کے لیے جنوبی غزہ کی طرف نقل مکانی کی، لیکن وہاں بھی لڑائی نے ان کا پیچھا کیا۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد 22 ہزار 722 تک پہنچ گئی ہے- جب کہ 60 ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں۔
حماس کو امریکہ نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں 20 لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔