جبری گمشدگی بلوچستان کا سنگین مسئلہ ۔ اسد بلوچ

208

جبری گمشدگی بلوچستان کا سنگین مسئلہ
تحریر: اسد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ 

23 نومبر کو جب تربت میں بالاچ نامی ایک نوجوان کی پولیس کے ذیلی ادارے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے زریعے ماورائے عدالت قتل کا واقعہ پیش آیا تو تربت سے ایک ایسی تحریک نے جنم لیا جس کے اثرات اب اسلام آباد تک پہنچ گئے ہیں۔

دارالحکومت میں گزشتہ ہفتوں سے جاری دھرنا جس کی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کررہی ہیں ان کا سب سے بڑا مطالبہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کا سلسلہ روکنا ہے تاہم اس مطالبہ کے ساتھ ساتھ فیک انکاؤنٹر میں لاپتہ افراد کا قتل اور لاپتہ افراد کی با حفاظت بازیابی بھی دھرنا کے اہم ترین بنیادی نکات میں شامل ہیں۔

گوکہ سرکاری سطح پر جبری گمشدگی کو محض ایک سیاسی الزام قرار دے کر ہمیشہ نظر انداز یا اس کا انکار کیا جاتا رہا ہے مگر بسا اوقات کئی نوجوان جبری گمشدگی کے مہینوں یا سالوں بعد گھروں کو واپس لوٹ گئے ہیں یہ صرف ایک علاقہ یا ضلع میں نہیں ہوا بل کہ بلوچستان کے ہر اس ضلع گاؤں یا دیہاتوں میں ہوا ہے جہاں جبری گمشدگی کے الزامات لگائے گئے ہیں اس سے معلوم پڑتا ہے کہ سرکاری دعوؤں کے برخلاف لاپتہ افراد کا مسلہ ایک حقیقی صورت میں موجود ہے جسے چاہ کر بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کے بعد ایک امکان یہ تھا کہ جبری گمشدگی کے واقعات ختم ہوں گے یا اس میں کمی لائی جائے گی تاہم اسلام آباد دھرنا کے باوجود بلوچستان کے مختلف علاقوں اور ضلع کیچ میں جبری گمشدگی کے الزامات مختلف متاثرہ خاندانوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے متواتر لگائے جارہے ہیں ایسا ہی ایک الزام تربت سنگانی سر سے جبری گمشدہ شھاب الدین کے خاندان کا ہےاس خاندان کے بقول وہ 13 جنوری کو گھر سے حراست میں لیے جانے کے بعد لاپتہ کیے گئے ہیں۔

نومبر 2023 سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین کی سربراہی میں جاری ایک موثر اور منظم تحریک جن کے مطالبات میں سوشل اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ طلبہ کی جبری گمشدگی روکنے کا مطالبہ سرفہرست ہے بل کہ اس موومنٹ کو بلوچستان سے باہر پاکستان کے بڑے شھروں میں بھی پزیرائی ملنے لگی ہے اور اس جدوجہد کے ساتھ عام پاکستانیوں کی ہمدردیاں شامل ہونے لگی ہیں اس کے باوجود جبری گمشدگی تاحال بلوچستان کا سب سے بڑے مسلہ ہے۔

اس سال جنوری کو بھی تربت سے نوجوانوں کے جبری گمشدگی کی بازگشت سنائی دی اس سلسلے میں تربت سے شھاب الدین، شمس الدین اور عبدالباسط نامی نوجوانوں کے علاوہ دیگر افراد کی جبری گمشدگی کے خلاف حق دو تحریک حق پرست اور لاپتہ افراد کی فیملی کی طرف سے رواں ہفتے کو ایک مشترکہ ریلی تربت پریس کلب سے نکالی گئی جس میں بڑی تعداد میں لاپتہ افراد کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے خواتین اور بچوں نے شرکت کی۔

ان لاپتہ کیے گئے افراد اور حق دو تحریک کی طرف سے فدا شھید چوک تربت پر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں لاپتہ شھاب الدین، شمس الدین، ظریف بلوچ اور عبدالباسط کی والدہ اور بہنوں نے خطاب کیا اور ضلعی انتظامیہ سے ان کے بازیابی کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔

فیملی نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ شمس الدین کو 7 جولائی 2021 کو گھر سے سیکیورٹی اداروں نے جبری لاپتہ کیا تھا وہ تب سے لاپتہ ہیں جب کہ اس کے بھائی شھاب الدین کو 13 جنوری 2024 کی رات سنگانی سر تربت میں گھر پر ہی چھاپہ مار کر جبری غائب کیا گیا۔

مظاہرین نے چیف جسٹس آف پاکستان سے بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی اور انہیں غیر قانونی طور پر سالہا سال زیر حراست رکھنے کے خلاف ایکشن لے کر لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کی اپیل کی۔

مظاہرین نے حکومت اور سیکیورٹی اداروں سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ ان کے لاپتہ کیے گئے افراد جن پر کوئی کیس ہے یا وہ کسی ایسے سنگین الزام میں ملوث ہیں جن کی قانونی حیثیت جرم شمار ہوتی ہے انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے اور عدالتوں کو انصاف کا تقاضا پورا کرنے کی کھلی اجازت دی جائے اگر لاپتہ کیے گئے افراد پر جرم ثابت ہوں تو ملک کی آئین جو سزا ان کے لیے تجویز کرتی ہے ہمیں وہ سزا قبول ہے چاہے اس کی سزا پھانسی یا عمر قید کی صورت میں ہی ہو۔

بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جو ریاست کا ایک انتظامی صوبہ ہونے کے باوجود متحارب گروہوں اور ریاست کے بیانیہ کے بیچ انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے علاوہ مختلف دیگر حوالوں سے متنازعہ ہے۔ مسلح تنظیموں کی متشدد کارروائیوں کے علاوہ جبری گمشدگی اور انسانی حقوق کے پامالی کے خلاف کئی دہائیوں سے جاری ایک پرامن تحریک بھی بلوچستان میں موجود ہے اور یہ تحریک جس کی قیادت اب نوجوان عورتوں کے ہاتھ میں ہے اس کا بیانیہ شدت کے ساتھ روز بروز بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے، بلوچوں کے علاوہ اس آواز سے اب غیر بلوچ سندھی، سرائیکی، پشتون اور اب پنجاپ کا عام طبقہ ایک حد تک متاثر ہورہا ہے جو اس سیاسی موومنٹ کی کامیابی ہے۔ مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس سب کے برعکس ریاست اور اس کے ادارے بلوچستاں کے معاملے پر اپنے قائم کردہ کالونیل پالیسی سے منہ موڑنے کو تیار نہیں ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔