جبری گمشدگیوں کا بڑھتا ہوا المیہ
ٹی بی پی اداریہ
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماروائے عدالت قتل کے دستاویزی ثبوتوں کے باجود پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا حساس مسئلے کے سنگینی کا ادراک نہ کرتے ہوئے حقائق کو جھٹلانے اور بلوچستان کے سلگتے مسائل پر غیر سنجیدہ بیانات دینا حقائق سے چشم پوشی ہے۔
پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ دعویٰ کرتے ہیں کہ بلوچستان میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ آن انفورسڈ ڈس اپیرنس یا جبری گمشدگیوں نے صرف پچاس واقعات رپورٹ کئے ہیں, جو حقائق کے برعکس ہے۔ ڈبلیو جی ای آئی ڈی کے رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دورانیہ میں تیرہ مئی دو ہزار بائیس سے بارہ مئی دو ہزار تئیس کے درمیان اقوام متحدہ کے ادارے نے جبری گمشدگیوں کی ایک ہزار چھ سو پینتیس شکایات حکومت پاکستان کو بھیجے ہیں۔
پاکستان کے کمیشن آف انفورسڈ ڈسپیئرنسز نے بلوچستان سے اکتیس اگست دو ہزار تئیس تک دو ہزار سات سو آٹھ کیسز ریکارڈ کیے ہیں۔ بلوچ لانگ مارچ کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سینکڑوں افراد نے جبری گمشدہ افراد کا اندراج کرایا ہے اور اِس وقت اسلام باد پریس کلب میں جاری دھرنے میں سو سے زیادہ جبری گمشدہ افراد کے لواحقین موجود ہیں۔
حقائق کو جھٹلانے اور جبری گمشدہ افراد کے بازیابی کے لئے لانگ مارچ کے قائدین پر الزامات لگانے سے مسئلے کی سنگینی کو کم نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ بلوچستان میں جب تک ریاستی ظلم ؤ جبر کو ختم نہیں کیا جاتا ُاس وقت تک جبری گمشدگی ؤ اجتماعی سزا کے خلاف سیاسی تحریکیں مختلف شکل میں جاری رہیں گی۔
جبری گمشدگیوں پر سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے متضاد اعداد و شمار اس امر کا عکاس دکھائی دے رہے ہیں کہ ریاست جبری گمشدگیوں کو بطور پالیسی اختیار کرچکی ہے، انکی تمام توانائی اس مسئلے کو جھٹلانے میں استعمال ہورہی ہے، بجائے اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدگی دکھائی جاتی۔ اسلیئے اب یہ مسئلہ ابھر کر ایک بڑے انسانی المیئے کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔