پاکستانی فورسز کے ہاتھوں حراست بعد دو ماہ لاپتہ رہنے والا نوجوان بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا۔
تربت سے تعلق رکھنے والا نوجوان جو دو مرتبہ جبری گمشدگی کا نشانہ بنا، آخری بار دو ماہ قبل پاکستانی فورسز نے انھیں حراست بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا جو گذشتہ روز بازیاب ہوکر واپس گھر آگئے ہیں-
منصور بلوچ کی بازیابی کے تصدیق انکے اہلخانہ کی جانب سے کی گئی ہے-
یاد رہے کہ بلوچستان میں چند جبری لاپتہ افراد کی واپسی تو ممکن ہوئی ہے البتہ متعدد علاقوں سے مزید جبری گمشدگیوں کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے رواں سال جنوری کے ان دس روز میں بلوچستان کے علاقے کوئٹہ اور گوادر سے جبری گمشدگیوں کے دو واقعات رپورٹ ہوئے ہیں-
بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی اور لاپتہ افراد کے اہلخانہ کا دھرنا بھی قائم ہے جس کے چلتے مختلف علاقوں اور بیرونی ممالک احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں-
بلوچ یکجہتی کمیٹی جو وسیع پیمانے پر جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری تحریک کی قیادت کررہی ہے، نے گذشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انکے جبری گمشدگیوں کے خلاف دو ماہ سے جاری انکے تحریک کے دؤران ہی 40 کے قریب بلوچوں کو ماوارئے عدالت اور قانون جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ مختلف علاقوں سے لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ بھی جاری ہے-
بلوچ یکجہتی کمیٹی اور دیگر بلوچ تنظیمیں ان جبری گمشدگیوں اور قتل میں ریاستی اداروں کو ملوث قرار دیتے ہیں ان تنظیموں کا الزام ہے کہ جبری گمشدگیوں میں ملوث ریاستی اداروں کے حمایت پاکستان کے مین اسٹریم پارٹیاں حکومت اور عدلیہ کررہی ہیں جو کہ شہری حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے-
بلوچستان، اسلام آباد، سمیت دنیاء بھر میں جاری حالیہ مظاہروں میں مظاہرین بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خاتمے کا مطالبہ اور ریاستی اداروں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ ان احتجاجوں کے چلتے عالمی انسانی حقوق کے تنظیمیں بھی اس جانب متوجہ ہورہے ہیں جبکہ مختلف انسانی حقوق کے تنظیموں اور ممالک نے بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں کی مذمت کی ہے-