تحریک کے چوتھے فیز میں ملکی و بین القوامی سطح پر بلوچ نسل کشی کے خلاف آگاہی مہم چلائیں گے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

588

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ‏‎آج ہمارے تحریک کا 56واں دن ہے اور ہم اسلام آباد پریس کلب کے سامنے جاری دھرنے سے آپ حضرات سے مخاطب ہیں۔ ہماری یہ تحریک 23نومبر کو بلوچستان کے ضلع کیچ سے شروع ہوا ۔شہید بالاچ کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف یہ دھرنا 5 دسمبر تک تربت شہید فدا چوک تربت میں جاری رہا، جبکہ اس تحریک کے دوسرے مرحلے میں ایک لانگ مارچ کا آغاز کیا گیا ۔ 6 دسمبر کو تربت سے  لانگ مارچ روانہ ہوا  اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے 20دسمبر کو  اسلام آباد پہنچا اور دو دن اسلام آباد کے جیلوں میں گزارنے کے بعد 24دسمبر سے یہ دھرنا اسلام آباد پریس کلب کے سامنے جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ‏‎ اسلام آباد میں لانگ مارچ کے مطالبات پر  سنجیدگی سے عمل کرنے کے لیے ریاست کو ایک ہفتے  کی مہلت دی گئی تھی لیکن اس پورے دورانیے میں ریاست نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کے بعد اس تحریک کے  تیسرے مر حلے کا اعلان کیا گیا۔ تحریک کے تیسرے مرحلے میں ہم نے بلوچستان سمیت ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کیا تھا جس میں گزشتہ دس دنوں میں50سے زاہد گاؤں اور شہروں میں احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور دھرنے کیے گئے جس میں ملیر، لیاری، حب چوکی، وندر، گڈانی، اوتھل، جھاؤ، آواران، مشکے، گریشہ، نال، وڈھ،اورناچ،  خضدار، کرخ، سوراب، قلات، منگچر، مستونگ، کوئٹہ، تربت، پنجگور، ڈڈے دشت، کڈان دشت، بالیچہ، تمپ، مند، گوادر، کلدان، جیونی، پسنی، اورماڑہ، سربندن، بسیمہ، ناگ، خاران، دالبندین، یک مچھ، برابچہ، نوکنڈی، چہتر، واشک، چاغی، نوشکی، ڈھاڈر، نصیر آباد، سبی، کوہلو، بارکھان اور تونسہ شریف شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صرف دس دنوں میں ان پچاس شہروں میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے جن میں اکثریت خواتین کی تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ نسل کشی اور ریاستی مظالم کے خلاف لاکھوں لوگوں کا سڑکوں پر نکل آنا اس تحریک کے حق میں ایک عوامی ریفرنڈم ہے۔ اس تحریک کے کال پر صرف ایک علاقے اور ایک ریجن سے نہیں بلکہ ملیر کراچی سے لیکر تونسہ شریف تک لوگ رضاکارانہ بنیادوں پر اپنے گھروں سے نکل رہے اور اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں جو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ  نسل کشی کا مسئلہ کتنا حقیقی مسئلہ ہے اور یہ تحریک کس قدر عوامی تحریک ہے۔

‏‎

ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ ‏‎جیسا کہ آپ کے علم میں ہےکہ اس تحریک کی بنیاد  بلوچ نسل کشی  اور ریاستی مظالم جیسے انتہائی سنگین مسائل ہیں اور اس تحریک کے مطالبات بھی اپنے آپ میں مدلل اور زمینی حقائق کے عین مطابق ہیں لیکن آپ صحافی حضرات اس امر کے چشم دید گواہ ہے کہ  اس پر امن عوامی تحریک کے حوالے سے ریاست کے رویے  اور اقدامات شروع دن سے کس قدر جارحانہ اور پُرتشدد تھے  اور ہنوز جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‏‎ہم نے گزشتہ 4 پریس کانفرنس میں ریاست کے جارحانہ رویے اور پُرتشدد اقدامات کے بارے میں تفصیل سے بات کی تھی اور اس پورے دورانیے میں ریاست کے رویے اور پُرتشدد اقدامات میں کمی کے بجائے مزید تیزی آئی ہے۔

انہوں نے کہا ‏‎جیسا کہ اس تحریک کے شروع دن سے جہاں جہاں ہمارا لانگ مارچ گزرا اور اس تحریک کے حمایت میں جہاں جہاں احتجاج ہوئے ان میں تقریباً 15شہروں  ملیر، نال ، خضدار، لیاری، تونسہ شریف، ڈی جی خان ،گوادر، گریشہ، کوہلو ، بارکھان، حب، خیر پور، ماڑی پور، ڈی  آئی خان، اسلام  آباد میں اس تحریک کے رہنماوٴں سمیت سینکڑوں شرکاء کے خلاف بیس سے زائد ایف آئی آرز درج کیے گئے ۔ حالانکہ آپ صحافی برادری اور پورا ملک اس بات کی گواہ ہے کہ جہاں جہاں سے یہ لانگ مارچ گزرا ہے اور جہاں جہاں اس کے حمایت میں مظاہرے ہوئے وہاں ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا ہے جبکہ ہمارے اس پورے تحریک کے دوران تحریک کے رہنماوٴں ، ہمدردوں اور شرکاء کو گرفتاریوں کا سامنا ہے۔ جس میں سب سے پہلے جب لانگ مارچ کے پرامن شرکاء اسلام آباد پہنچے تو ان پر تشدد کے بعد تین سو (300) کے قریب شرکاء کو گرفتار کیا گیا جس میں خواتین، بچے اور بزرگ اور طلباء بھی شامل تھے۔ جبکہ  ڈی جی خان، تونسہ شریف  اور  لیاری میں اس تحریک کے حق میں ہونے والے احتجاج میں شریک درجنوں شرکاء کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‏‎اس لانگ مارچ میں شریک ہمارے دوستوں اور ان کے خاندان شروع دن سے پروفائلنگ اور ہراسمنٹ کا سامنا کررہے ہیں جس میں ان کے ویڈیوز اور تصاویر بنائے جارہے ہیں۔ جبکہ لانگ مارچ میں شریک جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین کے گھروں میں چھاپے مارے جارہے اور انہیں فون کرکے مختلف طریقوں سے دھمکیاں بھی دی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ ہم بلوچستان سے ڈیتھ اسکواڈز کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن حکومت بلوچستان اور وفاقی حکومت نے ڈیتھ اسکواڈز کے لوگوں پر مشتمل گروہ کا ایک احتجاجی کیمپ ہمارے دھرنے کے بلکل سامنے لگایا گیا ہے جس کے ذریعے آئے روز ہمیں ہراساں کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پورے تحریک کے دوران پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا نے ہمارے کیمپ کا مکمل طور پر میڈیا بلیک آوٴٹ کیا ہے حالانکہ یہ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی پرامن تحریک میں سے ایک ہے جس میں لاکھوں لوگ شامل ہے لیکن مین اسٹریم  میڈیا نے دانستہ طور پر ہمارے تحریک کی میڈیا بلیک آوٴٹ جاری رکھا ہوا ہے۔ جبکہ ہمارے پورے تحریک کا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے جس میں  سب اہم نقطہ نگراں وزیر اعظم نے پریس کانفرنس کرکے جبری گمشدگی کے شکار افراد کو دہشتگرد قرار دیا اور ان کے لواحقین کی توہین کی گئی جبکہ بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات نے مجھ سمیت پورے تحریک کے خلاف متعدد پریس کانفرنس کی ہیں جس میں ہم پر جھوٹے اور سنگین قسم کے الزامات عائد کیے گئے اور ہمیں دھمکیاں بھی دی گئی۔ اس کے علاوہ ایک ٹی وی اینکرپرسن نے باقاعدہ ہمارے تحریک اور مجھ سمیت ہمارے دیگر دوستوں کے خلاف باقاعدہ جھوٹ پر مبنی مہم چلائی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں مسلسل ہراساں بھی کیا جارہا ہے۔

‏‎انہوں نے کہا کہ ہمارے تحریک کے بنیادی مطالبات میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ ہے اور جبری گمشدگیوں کے خلاف صرف بلوچ نہیں بلکہ پشتون ، سندھی، مہاجر، شیعہ، کشمیری، گلگتی، سرائیکی  اور پنجابی کے ساتھ ساتھ دنیا کے انسان دوست لوگ بھی اس غیر انسانی عمل کو روکنے کیلئے آواز اٹھارہے ہیں اور اس انسان دشمن پالیسی اور عمل کے خاتمہ کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن اس کےباوجود بلوچستان میں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل بدستور جاری ہیں اور ہمارے اس تحریک کے دوران متعدد لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا اور کل بلوچستان کے علاقے اوتھل میں کوسٹ گارڈ نے ایک گاڑی پر فائرنگ کی اور اس کے ڈرائیور کو قتل  کیا، جس کی شنوائی نہ ہو سکی اور انصاف کے دروازے اب بھی بلوچ لوگوں کیلئے بند کر دئیے گئے ہیں، ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ریاستی پوری مشینری بلوچ نسل کش پالیسیوں میں برائے راست ملوث ہیں، اورمظلوم قوموں کی تاریخ میں ایسی نسل کش پالیسیوں کا خاتمہ عوامی قوت سے ممکن پایا ہے، اور بلوچ عوام ان پالیسیوں کے خلاف متحد ہے جس کا عملی اظہار اس تحریک کے تیسرے فیز میں لاکھوں کی تعداد میں بلوچ عوام نے سڑکوں پر نکل کر کیا۔

ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ بلوچستان ایک جنگ زدہ خطہ ہے جہاں روز بلوچ بچے، عورتیں، بوڑھے، جوان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ حالی ہی میں ایران نے بلوچستان کے علاقے پنجگور میں میزائل اور ڈرون حملے کیے جہاں دو معصوم بچے شہید ہوئے اور اس کے بعد آج صبح مغربی (ایران کے زیرانتظام) بلوچستان میں متعدد مقامات، شمسر، حق آباد، اونگ و دیگر میں ریاست پاکستان نے بمباری کرکے عام آبادی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں تاحال دس کے قریب افراد جانبحق ہونے کی اطلاعات ہیں جن میں اکثریت خواتین و بچوں کی ہے۔

انہوں نے کہا یہ بمباری گولڈ سمڈ لائن کے دونوں اطراف بلوچ نسل کشی کی واضح عکاسی کرتی ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ‏ بلوچستان میں ہمارے لئے ایک الگ ہی غیر انسانی قانون لاگو کی گئی ہے، جو بولے گا وہ مارا جائے گا یا غائب کیا جائے گا، لیکن اب ایسا ہم ہونے نہیں دیں گے، اس تحریک کا ایک مقصد یہی بھی ہے کہ ہم اس ریاست اور اس کے تمام اداروں کو یہ بتا سکیں کہ یہ ریاست بھلے ہی ہمیں انسان نہ سمجھے لیکن ہمارا سرمایہ ہمارے لوگ ہیں اور وہ زمین ہے جس پر ہم صدیوں سے رہ رہے ہیں۔ ہم اپنے عوام اور اپنے سرزمین کو ریاستی درندگی اور لوٹ مار کا نشانہ بننے نہیں دیں گے، ہم پوری منظم عوامی قوت کے ساتھ اپنے قوم کی نسل کشی کے خلاف ڈٹ کر کھڑے تھے، کھڑے ہیں اور آخری دم تک کھڑے رہیں گے، تم تشدد کرو گے ہم اس سے بھی زیادہ ابھریں گے۔

‏‎انہوں نے کہا کہ اسلام آباد  ہائی کورٹ نے  اسلام آباد انتظامیہ کو واضح طور پر  ہمارے پر امن احتجاج کے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیا تھا اور  اسلام آباد انتظامیہ سے ہم نے ہمارے دھرنے کے مدمقابل لگایا گیا سرکاری کیمپ میں خطرناک پروفیشنل کلرز کی موجودگی کے سبب سیکیورٹی  خدشات کا اظہار کیا لیکن اسلام آباد انتظامیہ اس  پرخطر نوعیت کو نظر انداز کررہا ہے اور اس کے علاوہ ہمیں وہاں سے مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کے حوالے سے بھی اسلام آباد انتظامیہ کو آگاہ کیا لیکن انتظامیہ نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کے سبب دھرنے میں شریک خواتین ، بچے اور بزرگ ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ ‏‎ہمارے پر امن تحریک کے خلاف یہ صرف ریاستی پرتشدد اقدامات اور غیر سنجیدہ رویے کے چیدہ چیدہ نکات تھے اگر ہم  تمام پہلوں پر بات کریں تو شائد یہ پورا دن بھی اس کے لیے کم پڑ جائے گا۔

‏‎

انہوں نے کہا کہ جیسا کہ ہم ذکر چکے ہیں کہ  بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری اس تحریک اپنے تیسرے مرحلے میں ہے جہاں ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہے اور اس کے ساتھ یہاں اس دھرنے میں روزانہ کی بنیاد پر بلوچستان بھر سے جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کے لواحقین آرہے ہیں اور اس کا حصہ ہورہے ہیں اور یہاں ان کے پیاروں کے جبری گمشدگی کے کیس کو بین الاقوامی قانون کے تحت رجسٹر کیے جارہے ہیں۔

‏‎ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ آج ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری اس تحریک کو جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہیں جس میں  اس تحریک کے تیسرے فیز جہاں ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہونے کے ساتھ ساتھ اب اس تحریک کے چوتھے فیز کا اعلان کرتے ہیں جس میں ملکی اور بین القوامی سطح پر بلوچ نسل کشی اور بلوچستان میں ریاستی ظلم و جبر کے خلاف آگاہی مہم چلائیں گے۔ اس آگاہی مہم میں ہم اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں وزٹ کرکے گھر گھر آگاہی مہم چلائے گے اور اسلام آباد کے عوام کو ہمارے ساتھ ہونے والے ریاستی مظالم، جبر اور بربریت کی حقیقت سے آگاہ کریں گے۔ اور اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے 21 جنوری کو تمام مظلوم اقوام کا ایک بین القوامی کانفرنس کا  بھی انعقاد کریں گے۔

‏‎

انہوں نے کہا کہ ہم ایک بار پھر اس پریس کانفرنس کے ذریعے سے ریاست کو پیغام دینا چاہتے  کہ یہ پر امن احتجاجی تحریک  اپنے مطالبات کے تسلیم ہونے تک ہر صورت جاری رہے گا جس کے  لیے ہم ہر طرح کے سخت حالات کا سامنا کرنے کے لیے  تیار ہیں۔ اب یہ امر ریاست کے سنجیدگی پر منحصر ہے کہ وہ اس تحریک کو کتنا طول دینا چاہتا ہے اور مذاکرات کی طرف سب سے پہلا قدم بالاچ بلوچ سمیت عطا اللہ کے قاتلوں کو فوری سزا اور اس تحریک سے جڑے ہر فیملی کے بچوں کی بازیابی شامل ہیں۔ آخر میں پھر سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس تحریک سے جڑے کسی بھی شخص یا اس تحریک کے دوران اگر کوئی بھی ناخوشگوار واقع پیش آئے تو  ان کی تمام تر ذمہ داری ریاست اور اس کے ادارے پر عائد ہوگی۔