تاریخ ساز 62 دن – ذوالفقار علی زلفی

374

تاریخ ساز 62 دن

تحریر: ذوالفقار علی زلفی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ نسل کشی کے خلاف اسلام آباد کا دھرنا دو صبر آزما مہینوں کے بعد اختتام کو پہنچاـ اس دھرنے اور اس کے گرد ابھرنے والی تحریک نے کراچی سے بندرعباس اور گوادر تا ہلمند بلوچ قوم کو اکھٹا کردیاـ اس کی اہم ترین خاصیت عام دیہی بلوچ خواتین کے قومی شعور کا بے مثال ابھار رہاـ خواتین کی اس تحریک نے جاگیردارانہ بلوچ پدرشاہیت کی زنجیروں کو توڑ کر کوڑے دان میں پھینک دیاـ اس تحریک کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے پہلی دفعہ ایرانی پارلیمنٹ میں پاکستانی فوج کی بربریت پر بحث ہوئیـ زاہدان کی سڑکوں پر ڈاکٹر ماہ رنگ کی حمایت میں نعرے لگےـ بے شمار اشعار اور نغمے تخلیق ہوئےـ

ہماری پوری تاریخ میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ وہ واحد شخصیت بن کر سامنے آئیں جنہیں کراچی سے زاہدان تک بلوچ قوم نے متفقہ طور پر اپنا قومی رہنماء تسلیم کیاـ یہ اعزاز بابا خیر بخش مری، بانک کریمہ بلوچ، غلام محمد بلوچ، سردار عطا اللہ مینگل اور نواب اکبر خان بگٹی جیسے قد آور رہنماؤں کو بھی کبھی نہیں ملاـ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کے اثرات طویل عرصے تک بلوچ سماج اور سیاست پر مرتب ہوتے رہیں گےـ

درست ہے جبری گمشدگان بازیاب نہ ہوسکےـ جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتال کی پالیسی ہنوز برقرار ہےـ پاکستانی فوج کی وحشت اور درندگی پر قابو نہیں پایا جاسکا  مگر دوسری طرف دیکھا جائے تو سخت سردی میں جاں گسل جدوجہد کرتی ان خواتین نے وہ کر دکھایا جو کوئی نہ کرسکاـ

پاکستان بھر کے محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد فکری طور پر بلوچ جدوجہد سے جڑ گئی ـ پاکستان کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کی قلعی کھل گئی ـ صحافیوں کے بھیس میں چھپے ایجنسیوں کے ہرکاروں کا نقاب اتر گیا ـ بلوچ سرداروں کا خصی پن آشکار ہوا ـ

اس تحریک کے اثرات کا تجزیہ اور اس پر تبصرے تو ہوتے رہیں گے ـ فی الحال ان تمام صحافیوں، سول سوسائٹی کے اراکین اور عام پاکستانیوں کا شکریہ جنہوں نے ہماری بہادر ماں بہنوں سے اظہار یکجہتی کیا ـ ان کی آواز بنے ـ

تحریک جاری ہے ـ آخری فتح تک ـ صبحِ نو تک


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔